آج بین الاقوامی جرائم کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ بات قانون کی خلاف ورزی سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ہتھیاروں کی غیر قانونی تجارت پر بطور خاص تشویش لاحق ہے ۔اس کے علاوہ ٹیکنالوجی ،مہارت اور عام ہلاکت کے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار مواد کی غیر قانونی تجارت بھی شدید تشویش کا باعث ہے۔اس کی وجہ سے ملک عزیز میں زندگی کے جو پہلو متاثر ہو سکتے ہیں وہ یہ ہیں ، مثلاً شرف انسانی جسے ہمارے آئین میں باقی سب باتوں پر ترجیح دی گئی ،یعنی انسانی حقوق ،اقلیتوں کا تحفظ، کسی ملک کی مزید ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم سے بچانے کے لیے اہم احتیاطی تدابیر ہے، انسانی حقوق اور اقلیتوں کا تحفظ کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے ۔کسی بھی ملک کا حکمران طبقہ یا گروہ ان حقوق کو ختم نہیں کر سکتا ۔بین الاقوامی قانون کی پابندی ہر قوم اور ملک کے لیے لازم ہے۔
منظم گروہوں کے بین الاقامی جرائم حد سے بڑھ گئے ہیں اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ سب مل بیٹھ کر باہم صلاح و مشورے سے بنی نوع کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا لائحہ عمل وضع کریں۔ہتھیاروں اور منشیات کے گھنائونے دھندے اور ان سے حاصل ہونے والی بے پناہ دولت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کے سدباب کے لیے بین الاقوامی مطح پر مل کر کام کریں۔
کسی خرابی اور مسئلے سے نپٹنے کے لیے محض ملکی اور بین لاقوامی قوانین وضع کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ قوانین پر عمل درآمد کرانا بھی لازمی ہے۔کچھ لوگ ہمیشہ برائی اور قانون شکنی پر آمادہ رہتے ہیں اس لیے قانون ایسا ہونا چاہئے جو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے اچھی طرح نمٹ سکے ۔اس مقصد کے لیے قانون کی پشت پر موثر قوت نامزد ہونی چاہئے وہ قوت جو قانون کی حکمرانی کے لیے نگران کی حیثیت رکھتی ہو اور جو بذات خود آزادی کا تحفظ کرتی ہو اس کا بھی از سر نو جائزہ لیا جانا چاہئے ۔بلاشبہ ہمارے ماضی نے بھی اس سلسلے میں اثرات مرتب کئے ہیں تاہم ہمیں طاقت کے وحشیانہ استعمال کے خلاف چوکنا اور چوکس رہنا چاہئے ہمیں ایسی قوت کی ضرورت ہے جس کی حیثیت قانون اور جمہوری ہو جس پر سیاسی کنٹرول ہو اور اس کا درست نفاذ کیا جائے جو اندرون ملک اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر قانون کی حفاظت کرسکے اور اس کا اطلاق پولیس اور مسلح افواج دونون پر ہوتا ہے۔غیر آئینی، غیر جمہوری فیصلو ں سے ملک عزیز کو ان گنت مسائل و مشکلات نے آن گھیرا ہے ۔سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بعض گروہوں نے بین الاقوامی سطح پر اثر و رسوخ بنا لیا ہے۔القائدہ ایک طاقتور مذہبی گروہ بن کر ابھرا ہے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے کئے گئے غلط فیصلوں سے اس طاقتور گروہ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مذہبی گروہ بھی منسلک ہوگئے ہیں جس سے آج پوری دنیا کا امن و سکون تباہ و برباد ہو گیا ہے۔القائدہ کے خاتمے کے لیے افغانستان اور عراق پر حملوں نے غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے ۔دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ اور برطانیہ خود تو ڈوبے ہیں ساتھ پوری دنیا کو بھی لے ڈوبے ہیں۔یورپین ممالک کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھی اپنی تجوریو ںکے منہ کھول دیں۔اس بے معنی جنگ پر اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالر کے خرچ کئے جانے کے باوجود بھی القائدہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
بین الاقوامی اداروں کو دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے انتظامات کرنا ہوتے ہیں وہ بھی تذبذب کا شکار نظر آنے لگے ہیں۔امریکہ کے سامنے ان کی حیثیت معمولی بن کر رہ گئی ہے۔اس کے فیصلے امریکہ کی نظر میں بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔اس لئے دنیا سے بے چینی افرا تفری اور انتشار و افتراق ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔اس پر مستزاد یہ کہ صومالیہ کے بحری قذاقوں نے بھی سمندر میں اودھم مچا رکھا ہے اور ان کے خاتمے کے لیے منظم و موثرپالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ غربت اور جاہلیت ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک کو اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ورنہ امن و امان کا مسئلہ دگرگوں رہے گا۔
امن کے قیام کی آڑ میں امریکہ آج تک لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے لیکن امن قائم نہیں ہوا۔جاپانیوں اور جرمنوں کے دلوں میں امریکہ کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے ۔ اب وہ امریکیوں کو اپنی سرزمین پر چلتے پھرتے بھی دیکھنا گوارہ نہیں کر رہے۔امریکیوں کے غیرمناسب رویے اور تکبرانہ پالیسیوں سے پوری دنیا میں نفرت جنم لے رہی ہے ۔عراق،ایران،لیبیا،شام،یونان،فلسطین ،افغانستان اور پاکستان میں امریکیوں کے بارے میں بہت برے خیالات پائے جاتے ہیں ۔ان ممالک کیء عوام کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل کے لیے امریکہ نے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائی بلکہ اسرائیل اور بھارت کو مزید مسلح کئے جا رہا ہے ۔امریکہ کے اس جانبدارانہ رویے سے اسرائیل اور بھارت بے لگام ہو رہے ہیں جس سے دہشت گردی فروغ پا رہی ہے۔
امریکی دانشوروں کے اندر بھی یہ احساس تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ امریکہ کے غیر ضروری اقدامات اور جانبدارانہ رویوں سے امریکہ کے خلاف پوری دنیا میں خصوصاً مسلمانوں میں نفرت فروغ پا رہی ہے۔کیا ضرورت تھی سابق صدر بش اور ٹونی بلئیر کو اس لڑائی کو صلیبی جنگ کہنے کی ۔جس کی لیبیا کے مرحوم صدر جنرل قذافی آج سے بیس برس قبل دہشت گردی کی تاڑ میں لڑی جانے والی جنگ کے بارے میں مسلمانوں کو خبردار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ مسلمانوں پر بارود برسا کر اپنی فوجی قوت کا مظاہرہ کرے گا اور آج اس کی یہ پیشن گوئیقطعی درست ہوئی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور مسلمانوں پر صلیبی جنگ مسلط کر کے انگریز مسلمانوں سے اپنی شکست کا بدلہ لے رہے ہیں جبکہ یہ جنگ بھی آخر مسلمان ہی جیتیں گے چاہے امریکی اور برطانوی فوجی جتنا مرضی ان پر بارود برسا لیں ۔فتح ہمیشہ حق کی ہوا کرتی ہے۔امریکی پنٹا گون اور سی آئی اے نے انسانی حقوق کی بے تحاشا خلاف ورزیاں کی ہیں بلکہ امریکہ اس سلسلے میں بازی لے گیا ہے۔عراق، افغانستان اور پاکستان میں امریکی فوجی کاروائیوں سے لاکھوں انسان قتل ہو چکے ہیں اور سینکڑوں عقوبت خانوں میں بدترین سلوک کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
Illegal Weapons
ادارہ اقوام متحدہ دنیا میں امن و امان کے فروغ اور جنگوں کے خاتمے کے لیے معرض وجود میں لایا گیا تھامگر اسی ادارے کے قوانین و ضوابط وضع کرنے والے خود ہی ان ضابطوں کو جب توڑنا شروع کر دیں تو دنیا سے ظلم و جبر کا خاتمہ کیسے ممکن ہو سکے گا۔اس کا جواب ہم سے کوئی مت پوچھے کیونکہ ہم تو ظلم و جبر کی چکی میں پس رہے ہیں اور ہمارے اعصاب شل ہو چکے ہیں اور ہماری ہمت جواب دیتی جا رہی ہے ۔ امریکہ ”ڈو مور” کا بار بار حکم دے کر ہمارے چھکے چھڑا رہا ہے رہی سہی بھارت پوری کر رہا ہے۔امریکی پالیسی ساز ادارے پاکستان کو ہر لحاظ سے کمزور کرنے کی جو حرکتیں کر رہے ہیں اس سے جو دہشت گردی بڑھے گی وہ مستقبل میں امریکیوں کے ناکوں چنے چبوائے گی اور دنیا میں مذہبی دہشت گردوں کو کوئی دوسرا مسلمان ملک لگام نہیں دے سکے گا۔اور بین الاقوامی جرائم کا دائرہ مزید ترقی کرے گا۔۔دہشت گردانہ مذہبی گروہ اسلحہ خریدنے اور جنگوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر قسم کے جرائم کرتے ہیں ۔اغواء برائے تاوان،ڈکیتیاں،قتل و غارت گری ،لوٹ ماراور منشیات فوشی ایسی قبیح حرکات ان کے لیے باعث رحمت اور ثواب ہوا کرتی ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ان مسائل کے ٹھوس حل کے لیے پوری دنیا بغیر کسی حیل و حجت کے نظریاتی اختلافات اور ذاتی مفاد کے سر جوڑ کر فیصلے کرے جس سے آنے والی نسلیں محفوظ زندگی بسر کر سکیں۔ورنہ جو کچھ ہو گا سب کو معلوم ہونا چاہئے۔