30 اکتوبر 2011کو لاہور میں ہونے والے جلسے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف عوام میں بڑی تیزی سے مقبول ہوئی اور دوسری پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے بے شمار سیاسی لیڈران نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔لوگ جوق در جوق عمران خان کی قیادت میں تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرنے لگے مگر افسوس کہ چند مہینے بعد ہی دوسری پارٹیوں سے آنے والے سیاسی لیڈر پاکستان تحریکِ انصاف سے استعفی دے کر واپس دوسری پارٹیوں میں شامل ہو گئے۔تحریک ِ انصاف کی قیادت کو شائد کوئی عقلمند اور باصلاحیت سیاسی مشیر نہیں ملا جس کی وجہ سے پارٹی کے تمام فیصلے خود پارٹی کے چیئر میں عمران خان صاحب کرتے ہیںاور پارٹی کے کسی بھی ممبر سے مشورہ کرنا انہیں گوارہ ہی نہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی مقبولیت میں کمی کی وجہ چیئر میں عمران خان کا رویہ ہے جیسے دوسری پارٹیوں کے رہنمائوں پر تنقید کرنا کہ انہوں نے ماضی میں فلاں فلاں برے کام کیے ،انہیں چاہیے کہ دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے عوام کی فلاح کے لیے خود اچھے کام کریں تا کہ لوگوں انہیں اچھاکہیں ،کسی پر تنقید کرنے سے عوام کے ذہنوں پر منفی اثر پڑتا ہے جب کہ عوام کی فلاح کے لیے اچھے کام کر کہ عوام کے سامنے مثبت اثرات مرتب کیے جا سکتے ہیں ،دنیا میں سب سے آسان تریں کام کسی پر تنقید کرنا ہے لیکن یہ اس سے منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں اسی لیے خان صاحب کو دوسروں پر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسیاں بنائیں اور عملی کام کریں تا کہ لوگوں کا اعتماد حاصل ہو سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس ایسے قابل رہنما بھی موجود ہیں کہ اگر انہیں موقع ملے تو آئندہ وہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے میں کار آمد ثابت ہوں اور بہتر انداز میں حکومت کر سکیں لیکن لوگوں کو اعتبار میں لیے بغیر کسی بھی پارٹی کاکامیاب ہونا کافی مشکل ہے۔ قارئین آپ آگاہ ہوں گے کہ شیری مزاری پاکستان تحریکِ انصاف کی عقلمند اور پڑھی لکھی رہنما تھیں جو96سے پی ٹی آئی کے ساتھ تھیںکچھ دنوں پہلے پارٹی رہنمائوں سے اختلافات کی بنا پر استعفی دے دیا ۔اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوںنے پارٹی کے قیام کے وقت عمران خان کا بھر پار ساتھ دیا اور 15سال بعد آج جب تحریکِ انصاف ابھر رہی تھی تو پارٹی رہنمائوں کے رویہ سے تنگ آ کر علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔چند دنوں پہلے ایڈمرل جاوید اقبال صاحب نے بھی تحریکِ انصاف سے استعفی سے دے دیا،اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِانصاف آمروں کے حواریوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہو چکی ہے۔30اکتوبر2011کے جلسے کے بعد گیلپ سروے کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف پاکستان کی مقبول پارٹی بن گئی تھی،لیکن اب پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی ہو رہی ہے،کمی کی شرح22.6فیصد ہے جبکہ عمران خان صاحب نے پارٹی مقبولیت میں 10فیصد کمی تسلیم کی ہے۔
اِن دنوں تحریکِ انصاف کی دھرا دھڑ وکٹیں گِر رہی ہیں،پہلے اِن کے اہم رہنما پارٹی چھور کر جارہے تھے مگر اب پارٹی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی جا رہی ہے۔ انٹر نیشنل ری پبلیکیشن انسٹیٹیوٹ (IRI)نے پاکستان کے مختلف حصوں سے چھ ہزار لوگوں کا سروے کیا ،سروے میں لوگوں سے کہا گیاکہ اگلے ہفتے الیکشن ہوتے ہیں تو آپ کِس کو ووٹ دیں گے۔سروے سے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن نے بازی مارتے ہوئے 28فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کو 21فیصد ووٹ حاصل کیے اور پاکستان پیپلز پارٹی نے14فیصد ووٹ لیے جبکہ متحدہ قومی مومنٹ نے نیچے سے ٹاپ کرتے ہوئے 3فیصد ووٹ حاصل کیے۔اس سے پہلے فروری میں ہونے والے سروے اور IRIکے کیے ہوئے سروے کے موازنے سے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں 3.7فیصد اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کو زور کا جھٹکا لگتے ہوئے مقبولیت میں 22فیصد کمی ہوئی اور پی پی کی مقبولیت میں 12.5فیصد سے کمی ہوئی۔اس طرح کے ہونے والے سروے 100فیصد درست ثابت نہیں ہوتے لیکن تقریباََ الیکشن کے بعد انہی کے قریب قریب نتیجہ ہو تا ہے۔
Imran Khan
رہی بات خان صاحب کی تو وہ پارٹی کے چیئر مین ہوتے ہوئے پارٹی کے ٹکٹ اپنی مرضی سے تقسیم کرنے کے مجاذ ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں عمران خان صاحب کو اپنے وطنِ پاکستان سے بے پناہ محبت ہے اسی لیے وہ پاکستان کو مختلف بحرانوں میں جھگرا ہوا نہیں دیکھ سکتے مگر مسلہ یہ ہے کہ اکیلے ملک کو بحرانوں سے کیسے نکالیں؟ایک کام کے لیے ایک مخصوص ٹیم کی ضرورت ہے جوکہ شائد خان صاحب کے پاس نہیں ہے۔لیکن ہماری دعا عمران خان صاحب کے ساتھ ہے کہ اللہ انہیں محنت اور لگن سے عوام کی فلاح وبہبود کرنے اور وطنِ عظیم کو درپیش مسائل سے نکالنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ عمران خان پاکستان کی عوام کے لیے شائد آخری اُمید ہے۔