گزشتہ سے پیوستہ موجودہ حالات کودیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے ہمارے سروں پر مصیبتوں کا بہت بڑا پہاڑ کھڑا لگاتار پتھر برسا رہا ہے اور کسی بھی وقت سارے کا سار بھی گر سکتا ہے ۔لیکن ہم اس حقیقت کو نظر اندازکرکے ان گرتے ہوئے پتھروں سے جان بچانے کی بجائے ان میں سے قیمتی پتھر تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حضرت واصف علی واصف نے کچھ اسی طرح کے حالات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ صرف ایک شعر میں بیان کرتے ہوئے کہا
میرے سر تے امبر ڈگیا ،میں تارے چن دی جاں میں اپنے آپ نوں ڈنگیا ،میں سپاں دی وی ماں حالات اس قدر خراب ہونے کے باوجود بھی ہم در پیش مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ایک دوسرے پر الزامات کی چھریاں چلانے کے سوا ہمیں کوئی کام نہیں آتا۔
حکمران عوام کو اور عوام حکمرانوں کو پربرا بھلاکہہ کروقت گزار رہے ہیں ۔کسی معاشرے میں حکمران طبقہ اگر ایمانداری اور نیک نیتی سے اپنے فرائض سرانجام دے تو عوام کو مجبورااپنے معاملات ٹھیک کرنے پڑتے ہیں ۔لیکن اگر حکمران ہی جھوٹ اور ٹال مٹول کی پالیسی پرعمل پیرا ہوجائیں اور عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوں تو پھر مثبت طرزفکر تو دور کی بات ہے مثبت سوچ بھی انسانی ذہن کے قریب سے نہیں گزرتی ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم کائنات کی بہترین قوم یعنی مسلمان اورآزاد پاکستان کے باسی ہو کر بھی ذلت و روسوائی کی دلدل میں روزبہ روز دھنستے چلے جارہے ہیں ۔آج ہمیں یعنی عوام کو حکمرانواں کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے اعمال درست کرنے کی اشدضرورت ہے۔جب تک عوام خود کرپشن کرنا نہیں چھوڑتی تب تک ممکن ہی نہیں کہ حکمران کرپشن نہ کریں ۔
میرے عزیز ہم وطنوںاگرچہ آج ہم نیک اور پرہیزگاروں کو بھی اپناحکمران چن لیںلیکن خود کو تبدیل نہ کریں تو نیک اور پرہیزگار لوگ بھی حکومت میں آنے کے بعد بے ایمان اور کرپٹ ہوجائیں گے ،بالکل اس مسلمان ریاست کی طرح جس کے حکمران جب عوام پر ظلم کرتے تو عوام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی کہ یا اللہ حکمران ظالم بن گیا ہے ۔یااللہ اس ظالم حکمران کو بدل کرہمیں نیک اور عوام کا درد رکھنے والا حکمران عطا فرما ۔قوم جب بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی وہ قبول ہوتی اور ان کا بادشاہ اگلا دن آنے سے پہلے ہی مرجاتا اوراس طرح عوام کو نیا حکمران مل جا تا۔ایک موقع ایسا آیا جب حکمران خاندان کے سب ولی عہد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ۔اب قوم کو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے ایک صاحب علم شخص کی ضرورت محسوس ہوئی اور عوام نے ریاست کے سب سے بڑے عالم دین کو ریاست کا بادشاہ مقرر کردیا ۔
عالم دین یہ بات اچھی طرح جانتا تھا ک اگر اس نے عوام پر ظلم کیاتو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گی جس کے نتیجے میں اس کی موت لازم ہوجائے گی ۔اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حکومت کے نشے میں حکمران کا مست ہونا فطری بات ہے ۔اس نے ہمسایہ ریاست جو کہ غیر مسلم تھی سور کی کھال کے مشکیزے بنوائے اور اپنی ریاست کے سب پانی بھرنے والوں کو بلا کر ان سے پرانے مشکیزے واپس لے کر ان کو سور کی کھال کے بنے ہوئے نئے مشکیزے دے دیے اور کچھ عرصہ تک بڑی ایمانداری اور نیک نیتی سے اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا ۔اور پھر جب اس نے محسوس کیا کہ عوام کے رگوں میں حرام سرایت کرچکا ہے تو ان عوام پر ظلم ڈھانے شروع کردیے ۔جب بادشاہ کے ظلم حد سے بڑے تو عوام نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا شروع کردیں لیکن قوم انجانے میں ایک عرصے سے سور کی کھال کی بنے مشکیزے کے ذریعے بھرا پانی پی رہی تھی جو کہ اسلام میں حرام ہے ۔اس لیے اس بار قوم کی دعائیں نہ قبول ہوئیں ۔
اس ساری کہانی کو بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ اگر ایک مسلمان قوم انجانے میں حرام کھاتی ہے جسکا اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے تواس کی دعائیں بارگاہ الہیٰ میں رد ہوجاتیں ہیں ۔توپھر جان بوجھ کرحرام کھانے والوں کی دعائیں کس طرح قبول ہوسکتی ہیں ۔آج ہمیں اپنے گریبان میں جھاکنے کی ضرورت ہے نہ کہ دوسروں کے۔ خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم حرام تو نہیں کھا رہے ۔اور اگرخود سے یہ جواب ملے کہ ہاں ہم حرام کھا رہے ہیں تو پھرمزید وقت ضایع کیے بغیر ہمیں اللہ تعالیٰ سے مافی مانگنے اور سچے دل سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہلال و حرام کی تمیز کرنے کے ساتھ ساتھ آج ہمیں دوسروں کو برا کہنا چھوڑ کر مثبت طرزفکر اپناتے ہوئے اپنی اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ہم بھی خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان اورخوبصورت مسلمان معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ راہ حق پر چلنے کی ہمت عطا کرے ۔آمین