صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کراچی میں پھیلی بدامنی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے حکومت سند ھ کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی کوبھی کراچی کا امن تباہ کرنے نہیں دیں گے ،دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ قیام امن کے لیے سیاسی قوتوں کو بھی اپنا کردار اداکرناہوگا۔جبکہ آئی جی سند ھ کا کہنا ہے کہ 16 تھانوں کی حدود ہمارے کنٹرول میں نہیں ،پولیس پیچھے ہٹی توشہر کوکوئی نہیں بچا سکے گا۔اور جہاں تک بات ہے شہر قائد میں امن وامان کی صورتحال کی تو اُس کا اندازہ اس قسم کی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے جن سے روزانہ اخبارات بھرے رہتے ہیں ۔
اورنگی ،بفرزون،پاک کالونی اور کھوکھر اپار میں 4 تاجروں سمیت 8 افراد قتل ۔صبح سویرے اورنگی میں فائرنگ سے 25 سالہ رضا ہلاک ، مشتعل افراد قطر اسپتال کے باہر جمع فائرنگ سے 2راہگیر بھی زخمی ہوئے۔جہان ا باد سے25سالہ مغوی نوجوان کی نعش ملی ،احسن آباد سہراب گوٹھ میں علینا فیکٹری کے مالک رحیم الدین کی کار پرفائرنگ ،موقع پر ہلاک ،بنارس کے قریب مسلم خان فائرنگ سے ہلاک،ارم شاپنگ سینٹر میں کراچی کارپٹ کی دکان کامالک عرفان ہلاک بھائی زخمی 2ماہ قبل ان کے بھائی جبار کوبھی فائرنگ کرکے ہلاک کردیاگیا تھا،کھوکھر اپار میں اچھوبیکری کے قریب موبائل فون شاپ کے مالک شاہد طیب کوفائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا،نارتھ کراچی سے نامعلوم شخص کی نعش ملی ،سہراب گوٹھ میں منصف قتل ۔اور نجانے کتنے لوگ ہیں جن کے قتل یا اغواہونے کی خبر میڈیا تک نہیں پہنچ پاتی،چوری اور ڈکیتی تو ایسی وارداتیں ہیں جن کی لوگ ایف آئی آرتک درج نہیں کرواتے ۔
شہرقائد خون میں نہا رہا لیکن ہم صرف بیانات کی حد تک امن و امان قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔جب سے ہوش سنبھالا حکمرانو ںکو یہی کہتے سنا ہے جو حکومت وقت کہہ رہی ہے کہ کراچی کا امن بحال کیا جائے گا۔دہشتگرد عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔کسی کو کراچی کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔تاریخ اٹھا کردیکھا جائے تو ہزاروں بار صدراور وزیراعظم کراچی کے تشویش اور دردناک حالات کا نوٹس لے چکے ہیں۔لیکن حالات بد سے بدتر ہی ہوتے چلے جارہے ہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ آج کوئی ایک پاکستانی بھی شہرقائد میںپھیلی قتل و غارت اور لوٹ مار سے بے خبرہو ۔ میرے نزدیک شہر قائد میں ہونے والی دہشتگردی کو روکنا صرف حکمرانوں ہی کاکام نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری میرے سمیت پاکستان کے ہر شہری و دیہاتی پر عائد ہوتی ہے۔
اگر چند لوگوں کے باہر نکلنے سے عدلیہ بحال ہوسکتی ہے تو پھر 18سے20کروڑ لوگ کیا صرف ایک کراچی شہر کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ؟پاکستان کے عوام پچھلے 65سالوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے اسی انتظار میں ہیں کہ کب کوئی مسیحا ء قوم کی تقدیر بدلنے آتا ہے ۔قارئین محترم بے حس اور ہڈدرم قوموں کی تقدیر بدلنے کبھی مسیحاء نہیں آیا کرتے ۔اس لیے اب وقت نہیں رہا کہ ہم مزید کسی مسیحا ء کے انتظار میں بیٹھے رہیں اور جن حکمرانوں کو ہم مسیحاء سمجھ رہے ہیں وہ بری طرح ناکام ہوچکے ہیں عوام کے جان ومال اور آبرو کی حفاظت کرنا ان لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے میرا مقصد کسی سیاست دان پر تنقید کرنا نہیں ہے کیونکہ ان کی بھی سو مجبوریاں ہوسکتی ہیں ۔ہوسکتا ہے قاتل اور دہشتگرد ان کے قریبی رشتہ دار ہوں ؟ہو سکتا ہے کہ شہرقائد کا امن وامان تباہ کرنے والے دہشتگرد عناصر حکمرانوں کی بات مانتے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری قوم کے ان مسیحوں کے گھر کچھ تحفے تحائف بھی پہنچا دیتے ہوں یہ قاتل لوگ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُوپرسے حکم نہ ہوان لوگوںکو قتل وغارت سے روکنے کا۔
Karachi Target Operation
خیر مجبوری کوئی بھی ہو کراچی کے حالات کو بہتر کرنا حکومت وقت کے بس کی بات نہیں لگتی۔ پانچ سالہ کارکردگی عوام کے سامنے ہے اورآئی جی سند ھ کے اس بیان سے حکومت وقت کی کارکردگی صا ف ظاہر ہورہی ہے کہ16 تھانوں کی حدود ہمارے کنٹرول میں نہیں ،پولیس پیچھے ہٹی توشہر کوکوئی نہیں بچا سکے گا۔کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آئی جی سندھ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ کراچی کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ اب ان کو ٹھیک کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں رہی؟آخر میں اتنا کہوں گا کہ اگر حکومت واقع ہی کراچی سمیت ملک بھر میں امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے حکومت اور سکیورٹی ادارے عوام کو اعتمادمیں لیں۔
صرف منتخب نمائندوں کونہیں بلکہ 18کروڑ عوام کواعتماد میں لیا جائے تاکہ ان خون خوار دہشتگردوں کو ملک میں کہیں پناہ نہ ملے اور جس طرح آج عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اگرٹھیک اسی طرح دہشتگردعناصر غیر محفوظ ہوجائیں تو نہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر میں امن وامان کی صورتحال خود بخود بحال ہوجائے گی۔