ایک نہایت ہی مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا نام سنتے ہی انسان حیران و پریشان ہو جاتا ہے، اس حیرانی و پریشانی کے ساتھ ساتھ اس کی راتوں کی نیندیں ، دن کا چین و سکون صرف چھنتا ہی نہیں بلکہ غارت بھی ہو جاتا ہے۔ ان لوازمات کی کئی شکلیں اور قسمیں ہو سکتی ہیں ، ان شکلوں اور قِسموں میں گِنے جانے والی ایک المیہ جس سے ہمارا پورا ملک اور ملک کا تقریبا ہر افسر شاہی افراد یا یوں کہہ لیں کہ موٹی (ہینڈ سم) سیلری (تنخواہ) پانے والا طبقہ بھی ہے جن کا بظاہر تو اونچا نام اور عہدہ ہوتا ہے مگر کرنا کرانا انہوں نے کچھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ لیٹ ٹائم آنا اور آنے کے بعد کوئی ایک آدھ میٹنگ پھر ریفریشمنٹ اور گپ شپ اس کے بعد چھٹی ہی چھٹی۔ایسے لوگوں کو مہنگائی کا لفظ کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ مہنگائی کس چڑیا کا نام ہے۔ مہنگائی (گرانی) جیسے الفاظوں سے نا بلد یہ لوگ بے حسی کی تصویر نظر آتے ہیں اس کی بایں وجہ یہ بھی ہے کہ جب یہ لوگ مہنگائی کے لفظ سے ہی نا بلد ہیں تو مہنگائی میں پِسے ہوئے لوگوں سے کس طرح واقف ہو سکتے ہیں۔
غریب تو جو کچھ کماتا ہے چاہے وہ سیلری کی مد میں ہو یا مزدوری کرکے کمایا ہوا پیسہ ، وہ کمانے کے بعد اپنی تنخواہ اور اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا موازنہ کرنے بیٹھ جاتا ہے اور یہ حساب کتاب کرنے لگ جاتا ہے کہ وہ اس دورِ گرانی میں مہنگائی کے عفریت کا مقابلہ کیسے کرے گا، اس کام کیلئے کہیں تو کوئی اپنے اخراجات کو کم کرنے کا سوچتا ہے تو کہیں کوئی فرد اپنے روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیاء کی کٹوتی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔کوئی سفری اخراجات کی کٹوتی کرنے میں لگ جاتا ہے تو کہیں کوئی لباس و پوشاک کی کمی کرتا نظر آتا ہے، یہ سب معاملات اس لئے کئے جاتے ہیں کہ اسے ملنے والی تنخواہ (سیلری) ناکافی ہوتی ہے۔ ناکافی اس لئے کہ اس مہنگائی کے دور میں جہاں روپے کی قدر صفر ہو رہی ہو اور ڈالر کی قیمت سینکڑے کے ہندسے کو عبور کر رہی ہو تو اسے ملنے والے پیکیچ کی کیا اوقات رہ جاتی ہے۔ سیدھا سیدھا یہ مثل ان غریبوں کیلئے کہا جا سکتا ہے کہ ” پائوں پھیلائوں تو سَر کھل جاتا ہے اورسَر ڈھانپوں تو پیر کھلنے لگتا ہے ” ہائے مہنگائی، اس ملک کے محنت کشوں اور تنخواہ دار طبقوں کو کہاں لے آئی ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ سیاست اور موجودہ مہنگائی کا بحران اب بھی ٹلنے والا نہیں ہے۔ اب ہونا یہ چاہیئے تھا کہ غیر سنجیدگی چھوڑ کر سنجیدگی کی طرف لوٹنا چاہیئے آخر کو الیکشن کا سال بھی ہے! اب بھی کچھ نہیں بگڑا ابھی تو اسمبلی قائم و دائم ہے اور اور اتحادیوں کا مشورہ بھی سامنے ہی ہے۔راقم تو مشورہ ہی دے سکتا ہے اس پر عمل کرنا یا نا کرنا اس کے اختیار سے باہر ہے۔کیونکہ اب تو عوام صبر اور برداشت کے گھونٹ پی پی کر تھک چکی ہے۔ اور قریب ہے کہ ان کے صبر کا بندھن ٹوٹ جائے ۔اس سے پہلے کہ یہ تلخ حقیقت لکھتے لکھتے قلم بھی جواب دے دے ملکی حالات، امن و امان، غربت، افلاس، بھوک کو ختم کرنے اور خاص کر غریبوں کیلئے مہنگائی کے تناسب سے مزدوری اور تنخواہ دیا جائے ۔ ایک چارٹ کی مدد سے دیکھتے ہیں کہ غریب کہاں کھڑا ہے؟اور شرحِ مہنگائی کہا ں ہے۔اور یہ چارٹ خالصتاً ایک غریب کے گھر کا کم از کم خرچ ہے۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حکومت ایک عام مزدور کی تنخواہ اس وقت صرف سات ہزار روپئے دے رہی ہے۔
ایک ماہ کا راشن (کم از کم) Rs. 5,000/= اسکول کی فیس (٢ بچے کی) Rs. 2,000/= بجلی کا بل (کم از کم) Rs. 1,500/= گیس کا بل Rs. 300/= پانی کا بل Rs. 150/= ٹیلی فون کا بل Rs. 500/= گوشت (اگر 10دن کھائے) Rs. 3,500/= سبزی (اگر 15دن کھائے) Rs. 2,500/= میڈیکل کے مد میںAvg Rs. 3,000/= کنونس (صرف دفتر کا آنا جانا) Rs. 3,000/= کرایہ مکان(ایک کمرے کا مکان) Rs. 4,000/= ٹوٹل خرچ ایک ماہ کا: Rs.25,450/= یہ اوسطاً خرچ کا تخمینہ ہے جو ایک غریب کے گھر کا ایک ماہ میں لگ بھگ خرچ ہے۔یہ رقم اس سے زیادہ تو ہو سکتا ہے مگر اس سے کم کسی صورت ممکن نہیں۔اب اگر غریب ، مزدور طبقہ، تنخواہ دار طبقہ اپنے حق کیلئے احتجاج کرے تو وہ یقینا حق بجانب ہوگا۔
دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کے بارے میں اوپر ذکر کیا گیا ہے ،جی! وہی طبقہ جن کی تنخواہ ہی ایک سے دو لاکھ کے لگ بھگ ہے اور جن کے کام جو وہ کیا کرتے ہیں اُس سے آپ کو آگاہی اوپر دی جا چکی ہے۔جس طرح ہر سال حکومت تنخواہ دار طبقے کی سیلری میں معمولی اضافہ کرتی ہے ساتھ ہی ان افسر شاہی طبقے کی سیلری میں بھی خاطر خواہ اضافہ کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی سیلری کی مقدار اور بڑھ جاتی ہے یوں رگڑا پھر غریب ہی جاتا ہے کیونکہ اس کی تنخواہ تو پہلے ہی کم تھی معمولی اضافے سے ہزار یا دو ہزار اور بڑھ جاتی ہے مگر مہنگائی اس سے دگنا کر دیا جاتا ہے مطلب یہ کہ غریب ہر نئے میں سال وہیں کھڑا ملے گا جہاں اس سے پچھلے سال کھڑا تھا۔ اور افسر شاہی طبقے کی واہ واہ رہتی ہے کیونکہ انہیں تو پہلے ہی مہنگائی سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور سونے پہ سوہاگہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیلری بڑھا دی جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سسٹم میں خرابی ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے زنگ آلود سسٹم کو تبدیل ہونا چاہیئے وگرنہ مہنگائی کی چکی میں غریب تباہ حال ہے اور تباہی کے دہانے پر آجائے گا۔
منصف ہو تو حشر اُٹھا کیوں نہیں لیتے مَر جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
ابھی حال ہی میں ایک چرچا سنا گیا تھا کہ جنوری میں موجودہ حکومت غریب ملازمین کیلئے کچھ کرنے والی ہے اوراس سلسلے میں ایک پیکیج بھی تیار ہوکر وزیرِاعظم صاحب کی کابینہ سے پاس بھی کرہو گیا ہے مگر اس کے بعد پتہ نہیں کیوں سنّاٹا سا چھا گیا ہے ، اورغریب تنخواہ دار طبقہ اور مزدور آس و یاس کی تصویر بن کر انتظار کر رہے ہیں کہ یہ کیس کہاں رُگ گیا ہے ۔ اور اس پر Implimentation کیوں نہیں ہو پا رہا ، اس کے پیچھے کون سا ادارہ یا کون سی بیوروکریسی ہے جو ان تمام معاملات کے پیچھے سرگرداں ہے۔ ان پوشیدہ رازوں سے بھی حکومتِ وقت کو نبرد آزما ہوکر اُس پیکیج پر عمل در آمد کرانا ہوگا تاکہ انتخابات میں اچھے اثرات مرتب ہو سکیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پر کنٹرول کیسے کیا جائے؟ اور ان تمام تر صورتحال کا ایک غریب اور کم پیسے کمانے والا انسان کیسے مقابلہ کرے، کیا اس کی کچھ تدبیر اور کچھ ذرائع ہیں جس سے انسان اس مہنگائی اور دورِ گرانی میں مہنگائی کے منھ پھاڑے بھوت کا مقابلہ کر سکے اس کیلئے زمام اقتدار کے مالک حجرات کو نہایت ہی سنجیدہ اور متانت کے ساتھ غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
Pakistan
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور انتظامیہ اس چیز پر کنٹرول کرے اور وہ اس کا بنظرِ غائر معائنہ کرے کہ اس میں کمزوری اور پرابلم کہاں پر ہے کیونکہ جب تک کسی چیز کی اصل کمزوری کو تلاش نہیں کیا جاتا اور اس کے کاٹ کیلئے مناسب حکمتِ عملی وضع نہیں کی جاتی اس وقت تک اس کا مقابلہ صحیح ڈھنگ سے کیا جانا محال ہے۔ راقم کا مشورہ مفت ہے کہ ہمارے یہاں کرپشن ، بدعنوانی، لوٹ اور کھسوٹ کا ایک لامتناہی بازار گرم رہا ہے اور اگر یہ تمام لوٹی گئی رقم قومی خزانے میں آجائے تو اس ملک کے غریبوں کا بھلا تو ہو ہی جائے گا اور جب مزدور سمیت تنخواہ دار طبقہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گا تو ہمارا پیارا وطن بھی انشاء اللہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل تو ہو ہی جائے گا۔ انہیں چاہیئے کہ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے مال و زر کے انبار لگانے کی فکر سے آزاد ہو ہو جائیں کیونکہ اس ملک کے عوام بھی ان کے ہی اپنے ہیں اس لئے ان کے لئے سوچنا بھی آپ پر فرض ہے۔ خدا آپ سب کو ہدایت عطا کرے۔وگرنہ تو یہ شعر ہی پورے مضمون کا احاطہ کرنے کیلئے کافی ہے۔