اسلام آباد(جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے سی این جی قیمتوں کے حوالے سے کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کل سنایا جائے گا۔ سی این جی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سر براہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اوگرا پانچ سال میں سی این جی لائسنس کی شرائط پر عملدرآمد نہیں کروا سکی ۔ ہر کوئی عوام کی جیبیں ڈھیلی کر رہا ہے۔ ملک بھر میں سی این جی کے معاملے پر بحث ہو رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے تاہم عدالت کسی بھی بیرونی قوت سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ دے گی۔
اوگرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ مرمت کے نتیجے میں گیس کا ضیاع کم ہونے کی بجائے ذیادہ ہوا۔ گیس کمپنیوں نے گیس کا ضیاع اور چوری روکنے میں دلچسپی نہیں لی۔ انہوں نے کہا کہ سابق چئیرمین اوگرا توقیر صادق نے کمپنیوں کو پانچ کی بجائے سات فیصد گیس کے ضیاع کی اجازت دی جس سے ایس این جی پی ایل کے شیئر کی قیمت سولہ سے بڑھ کر چھتیس روپے ہو گئی۔ یہ شیئر جن لوگوں نے خریدے انہیں فیصلے کا پہلے سے علم تھا۔ اس معاملے کی نیب تحقیقات بھی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوئی ناردرن کو نقصان کے باعث پنجاب میں کھاد کے سارے پلانٹس بند پڑے ہیں۔
یو ایف جی بہت بڑا سکینڈل ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑا۔ دوہزار تین اور چار میں یو ایف جی بتیس ہزار تھی جو دو ہزار گیارہ اور بارہ میں پچہتر ہزار ملین مکعب فٹ ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ گیس کمپنیاں حکومت کی ملکیت نہیں ان میں چوالیس فیصد حصص عوام کے ہیں۔ حکومت نے ان کمپنیوں کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گیس کی ترسیلات میں نقصآن اور چوری کی شرح گذشتہ نو سال میں بڑھ کر ایک سو دس فیصد ہو چکی ہے۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل سنایا جائے گا۔