چکوال کی سیاست پرْ خطر موڑ پر

Riaz Malik

Riaz Malik

انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں پاکستان بھر کی سیاست میں گرماں گرمی پیدا ہوتی جا رہی ہے ملک بھر میں پارٹیاں الیکشن کے لئے اپنے امیدوار میدان میں اتار رہی ہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے جس کے لئے جو جو علاقے فوکس کر رکھے ہیں ان میں خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں اتنا فنڈ خرچ کیا جا رہا ہے جتنا پورے بجٹ میں کرنا چاہیے تھا مسلم لیگ ن بھی اپنی بساط کے مطابق کام کر رہی ہے جماعت اسلامی جن کا اندرون خانہ مسلم لیگ ن سے الحاق متوقع ہے معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے تحریک انصاف جو شروع میں کافی متحرک تھی ان موسم کی طرح ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے اس کے اپنے کارکن واپس اپنی اپنی پارٹیوں میں جانا شروع ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے جو بیٹھے ہیں وہ بھی تیار بیٹھے ہیں۔

ملک بھر کے الیکشن شائد اتنے گرم نہ ہوں جتنے ضلع چکوال کا سیاسی میدان گرم ہو چکا ہے ضلع چکوال کے حلقہ NA61میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الہیٰ الیکشن لڑیں گے یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے مشترکہ امیدوار ہیں پھر تھریک انصاف ضلع چکوال کے روح رواں سردار غلام عباس کی مسلم لیگ ن میں شمولیت نے سیاسی میدانوں میں ہلچلمچا رکھی ہے سردار غلام عباس کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کی خبروں نے جہاں سیاسی میدانوں کو گرما رکھا ہے وہاںمسلم لیگ ن ضلع چکوال کے قائدین میں بے چینی بھی دیکھنے کو آرہی ہے کہا جا رہا ہے کہ سیمنٹ والوں نے میاں نواز شریف کو سردار غلام عباس کو مسلم لیگ ن میں لانے کا عندیہ دیا جس کے بعد وہ مسلم لیگ ن میں آنے کو آمادہ ہوئے ان کی مسلم لیگ ن میں شمولیت پر معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائدین میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں چودہدری نثار علی خان نے تو سردار غلام عباس کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کو مسترد کر دیا ہے۔

جبکہ خواجہ آصف نے سردار غلام عباس کو مسلم لیگ ن میں شمولیت کا گرین سگنل بھی دے رکھا ہے تجزیہ نگاروں کے مطابق میاں برادران سردار غلام عباس کو مسلم لیگ ن میں ہر صورت لیں گے چاہے انہیں مسلم لیگی ورکروں اور قائدین کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے اب تو مسلم لیگ ن کے مقامی قائدین کے رویہ میں بھی تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی ہے جنرل عبدالقیوم ملک نے بھی اپنے قائدین کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے اس سے تو صاف نظر آرہا ہے کہ میاں برادران نے سردار غلام عباس کو مسلم لیگ ن میں شامل کرنے کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ انہیں پورے ضلع چکوال کی نشستیں بھی دینے کا فیصلہ کر کیا ہے اب جب کہ یہ الفاظ قارہین پڑ ھ رہے ہونگے تمام منظر واضع طور پر سامنے آچکا ہو گا۔

سردار غلام عباس کا ضلع چکوال میں ایک بہت بڑا ووٹ بنک موجود ہے اس میں کوئی شبہ کی گنجائش نہیں اس کے علاوہ ضلع چکوال کے تمام لوگ اپنی پارٹیوں کے بل بوتے پر پاپولر ہیں شائد میاں برادران بھی اسی لئے سب ساتھیوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے سابقہ حریفوں کو اپنا حلیف بنانے کا فیصلہ کر رہے ہیں سردار غلام عباس کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کے بعد ضلع چکوال کی سیاست مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی کیونکہ مسلم لیگ ن کے مقامی قائدین منحرف ہو سکتے ہیں اور اور مسلم لیگ ن کے مد مقابل آسکتے ہیں اب سردار غلام عباس کے ووٹ بنک کا تذکرہ کرتے جاہیں پورے ضلع چکوال میں جو ان کا ووٹ بنک ہے ان میں اکثریت اہل تشیع کی ہے جو ان کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کے بعد شائد انہیں ووٹ نہ دے کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اہل تشیع صرف پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ دیتے آئے ہیں سردار غلام عباس آزاد حثیت سے الیکشن لڑ کر دیکھ چکے ہیں۔

PML N

PML N

مسلم لیگ ن کے کارکن اور موجودہ مقامی قیادت نے بھی محاذ کھڑا کر لیا تو سردار غلام عباس اور میاں برادراں ضلع چکوال میں مسلم لیگ ن کے قلعے کو مسمار ہونے سے نہیں بچا سکیں گے پھر مشکل حالات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو اتنے ووت یہان ملے جتنے کسی حلقہ میں بھی کسی امیدوار کو نہیں ملے تھے ممکن ہے کہ عوام ہی بغاوت کر جاہیں کہ میاں برادران نے جب اپنے ساتھیوں سے وفا نہیں کی وہ عوام سے کیا وفا کریں گے اگر سیاست دانوں نے بھی اس نعرہ مستانہ کو بلند کیا تو مسلم لیگ ن کے ساتھ وہ کچھ ہو سکتا ہے جو سابق دور میں مسلم لیگ ق کے ساتھ ہو چکا ہے میں یہاں ضلع چکوال کی بات کر رہا ہوں جہاں مسلم لیگ ن کی اب تک واضع اکثریت ہے۔

تبدیلی کیا رنگ لائے گی پوری دنیا دیکھے گی اب ضلع چکوال کی مسلم لیگی سیاست جس پرْ خطر موڑ پر کھڑی ہے قیادت کو بڑے اطمنان اور سوچ بچار سے کام لینا پڑے گا اگر انہوں نے کارکنوں اور مقامی قائدین کو اس لئے نظر انداز کر دیا کہ ضلع چکوال میں تو مسلم لیگ ن کا بڑا ووٹ بنک موجود ہے تو کہیں یہ ان کی خواب خیالی ثابت نہ ہو جائے بلاشبہ مسلم لیگ کو کھلے دل سے آنے والوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے مگر کارکنوں کو اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت ہے۔

تحریر : ریاض احمد ملک