دو تین روز پہلے ایک کام کے سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔واپسی پر ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک عجیب منظر دیکھا۔ڈیپارٹمنٹ کے سامنے بیس پچیس لڑکے کچھ لڑکوں کو بے دردی سے پیٹ رہے تھے اور ساتھ کھڑی لڑکیوں کی چیخیں ڈیپارٹمنٹ کے در و دیوار ہلا رہی تھیں۔لڑکیوں کی خوفزدہ چیخوں نے میرے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھوڑی دیر بعد مار پیٹ کرنے والے لڑکے موٹر سا ئیکلوں پر بیٹھ کر آناََ فاناََ غائب ہو گئے۔میں چند لمحے حیرت میں گُم وہاں کھڑی رہی اور جب حواس نے ساتھ دیا تو وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے ؟۔اُس نے انتہائی تلخ لہجے میں جواب دیا کہ مار پیٹ کرنے والوں کا تعلق اسلامی جمیعت طلباء سے ہے اور غنڈہ گردی کے ایسے واقعات روز مرہ کا معمول ہے۔میں نے اِس غنڈہ گردی کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ وجہ تو کوئی بھی نہیں ہوتی بس یہ لوگ جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھا کھڑے دیکھتے ہیں وہیں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ میرے لئے یہ حیرت کا دوسرا بڑا جھٹکا تھا کیونکہ اسی مادرِ علمی کی آغوشِ محبت نے میری عطشِ علمی کو پروان چڑھایا اور اسی یونیورسٹی میں مَیں نے اسلامی جمیعت طلباء کے لیے دن رات کام کیا مجھے آج بھی فخر ہے کہ میں فکرِ مودودی سے متاثر ہوں اور فُرصت کے ہر لمحے میں” تفہیم القُرآن” سے رہنمائی لیتی رہتی ہوں۔لیکن جس جمیعت سے میرا غائبانہ تعارف اُس روز ہوا ، بخُدا میرے لیے وہ اجنبی تھی بالکل اجنبی۔مجھے اُن میں سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی فکر کی بُو ملی نہ باس ۔پتہ نہیں یہ اسلامی جمیعت طلباء کہاں سے آئی ہے۔
گھر پہنچ کر بھی میں اپنی سوچوں سے اِس سانحے کوکھُرچ نہ سکی۔میرے سامنے وہ دَور تھا جب ہم اسی مادرِ علمی میں پڑھتے تھے۔مخلوط تعلیم تو ہمارے دور میں بھی تھی لیکن اسلامی جمیعت طلباء کے نوجوانوں میں طالبات کا احترام کوٹ کوٹ کر بھرا نظر آتا تھا۔شاید اسی بنا پر طالبات کی غالب اکثریت اسلامی جمیعت طلباء کی جذباتی حامی بھی تھی ۔ اب بھی مخلوط تعلیم ہی ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ اب یونیورسٹی میں کئی ایسے ڈیپارٹمنٹ کھُل چکے ہیں جن کا ہمارے دور میں وجود تک نہ تھا۔اب نصابی ضرورت کے تحت تقریباََ ہر ڈیپارٹمنٹ میں پریزنٹیشن کا رواج عام ہے اور اساتذہ کرام پریزنٹیشن کے لیے طلباء و طالبات کے مخلوط گروپ بھی تشکیل دیتے ہیں جس کی بنا پر طلباء و طالبات کا آپس میں رابطہ نا گزیر ہو جاتا ہے جسے کسی بھی صورت میں غلط یا نا مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن بنوکِ شمشیر اسلام پھیلانے کے یہ داعی پتہ نہیں کہاں سے وارد ہوئے ہیں جو اپنی حرکات و سکنات سے مولوی فضل اللہ کے حواری نظر آتے ہیں۔میں انتہائی ادب سے محترم لیاقت بلوچ صاحب اور فرید پراچہ صاحب سے سوال کرتی ہوں کہ دیانت داری سے بتلائیں کہ کیا یہ وہی جمیعت ہے جو آپ لوگوں کے دَور میں ہوا کرتی تھی ؟۔محترم فرید احمد پراچہ صاحب تو ہمارے ہی دور میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے اور وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ اُس دَور کی جمیعت سے ایسی غنڈا گردی کا تصور بھی محال تھا اور بلوچ صاحب کے دَور میں بھی ہمارا یونیورسٹی آنا جانا لگا رہتا تھا لیکن کبھی بھی اور کہیں بھی غنڈا گردی کا ایسا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ہمارے دَور میں ، البتہ پیپلز پارٹی کے پروردہ ” سُرخے” غلام مصطفےٰ کھر کی سر پرستی میں غنڈا گردی کا مظاہرہ کرتے رہتے تھے لیکن اس غنڈا گردی کے باوجود بھی وہ طالبات کا بہرحال احترام کرتے تھے۔ہم نے تو کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اپنے کسی ساتھی طالب علم سے بات کرنا یا اُس کے ساتھ کھڑے ہونا ایسا جُرمِ عظیم ہے جس پر سزا واجب ہو جاتی ہے۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح سے چند شر پسندوں کی دہشت گردی کی بنا پر سارے طالبان بدنام ہو رہے ہیں اسی طرح سے اپنے مفادات کے اسیر ”گھُس بیٹھیوں” کی وجہ سے جمیعت بدنام ہو رہی ہے۔ایسے عناصر ہمارے دَور میں بھی ہوتے تھے لیکن آٹے میں نمک کے برابر لیکن اب جمیعت میں فکرِ مودودی سے متاثر نوجوان شاید آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
میرے ذاتی علم میں ہے کہ اکابرینِ جماعتِ اسلامی کی غالب اکثریت اِن ”غنڈوں” سے نالاں اور بیزار لیکن مصلحتاََ خاموش ہے۔اِن عناصر کے بارے میں جب بھی سوال کیا جاتا ہے تو جماعت کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ اسلامی جمیعت طلباء کا نظم الگ ہے اور جماعتِ اسلامی کا اُن سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔جماعت کے اِس جواز کی صداقتوں پر کبھی بھی کسی نے یقین نہیں کیا اور ہمیشہ جمیعت کا کیا جماعت کو بھگتنا پڑتا ہے جس سے اکابرینِ جماعت بخوبی آگاہ ہیں۔اب جب کہ قوم ایک دفعہ پھر اپنے رہنماؤں کو منتخب کرنے جا رہی ہے، جماعتِ اسلامی کے اکابرین سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ یا تو اسلامی جمیعت طلباء سے لا تعلقی کا واضح اور واشگاف اعلان کرے یا پھر وہ ”گَند” صاف کرنے کی کوشش کریں جس سے اسلامی جمیعت طلباء بلکہ براہِ راست جماعت اسلامی بدنام ہو رہی ہے۔
Punjab University
ملک کی منظم ترین جماعت کے لیے یہ کام ایسا مشکل بھی نہیں۔میں یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ تحریکِ انصاف کے عروج کے دنوں میں جب مفاد پرست دھڑا دھڑ تحریک میں شامل ہو رہے تھے تب تحریکِ انصاف سے ہمدردی رکھنے والے لوگ پریشان ہو کر اکابرینِ تحریکِ انصاف کو یہ سمجھانے کی کوشش کیا کرتے تھے کہ ایسے لوگوں کا وجود تحریک کے لیے سراسر گھاٹے کا سودا ہے لیکن تحریک کے بزرجمہروں کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ ”ہم آنے والوں کو کیسے روک سکتے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصے میں اِنہی”فصلی بٹیروں” کی وجہ سے تحریکِ انصاف کا گراف یوں گرنا شروع ہوا کہ لوگ دنگ رہ گئے۔اب تحریک کے دانشور لاکھ یہ کہتے پھریں کہ اُن کے انتخابی اُمید وار پاک صاف لوگوں پر مشتمل ہونگے، کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔یقیناََ اب اُن کو ادراک ہو گیا ہو گا کہ جن لوگوں کو وہ بُرا بھلا کہتے رہے ہیں دراصل وہی اُن کے ہمدرد تھے۔اسی طرح سے اگر جماعتِ اسلامی یا اسلامی جمیعت طلباء یہ جواز گھڑتی ہے کہ وہ آنے والوں کو کیسے روک سکتے ہیں تو پھر اُن کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔