عام طور پر اچھے شاعر روزمرہ واقعات کو موضوع نہیں بناتے لیکن آج سے ٹھیک پانچ سال قبل پیش آنے والا یہ واقع، واقعے کی سطح سے کہیں بلند ہو گیا تھا۔ اس لیے جوں ہی غم کے بادل چھٹے، نظموں اور غزلوں کی جھڑی لگ گئی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں اردو شعرا نے اس سانحے پر لکھا ہے، اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
ذیل میں بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت سے متاثر ہو کر رنگارنگ اصناف، ہیئتوں اور انداز میں لکھی جانے والی منظومات کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
احمد فراز نے اپنا غم غزل کی شکل میں کاغذ پر انڈیل کر رکھ دیا:
سارا شہر بلکتا ہے پھر بھی کیسا سکتہ ہے گلیوں میں بارود کی بو یا پھر خون مہکتا ہے
کشور ناہید نے دوہے کی قدیم صنف اختیار کی:
چار کہار تری ڈولی اٹھائے کس کے گھر جاوت ہیں تو تو گھر کی رانی تھی کیوں مٹی ڈالت ہیں
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک ہی واقعے کو شعرا نے مختلف پہلوں اور زاویوں سے دیکھا ہے۔ تاہم ان تخلیقات کا جائزہ لینے پر کچھ پیٹرن بھی نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی شعرا نے اس سانحے کو واقع کربلا کے تناظر میں رکھ کر پیش کیا ہے:
مسلم شاہین کوفہ نیا بسا ہے نئی کربلا سجی شہرِ وفا کی بیٹی سوئے کربلا چلی
میاں محمود عامر دہر میں پیروکارِ زینب تھی اس میں بوئے وقارِ زینب تھی
ریحانہ روحی پھر سرخ رو ہوئی ہے پسِ مرگ زندگی پھر کربلا میں مات ہوئی ہے یزید کی
فاضل جمیلی یزیدِ وقت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئی سلام ہے تجھے بی بی، سلام ہے بی بی
کچھ شعرا کو شادی کے موقعے پر دلھن کی رخصتی کا منظر یاد آ گیا:
شبنم شکیل اب مجھ کو رخصت ہونا ہے، اب میرا ہار سنگھار کرو کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو، جلدی سے مجھے تیار کرو
محمود شام ایسے بہنوں کو تو رخصت نہیں کرتے بھائی ایسے بیٹی کو تو میکے سے نہیں بھیجتے ہیں
دوسری طرف ستار سید نے حملے والے دن کے مناظر کی منظر کشی بڑی وارفتگی سے کی ہے:
ہار مہکے ہوئے پھولوں کے گلے میں رقصاں عرش سے حور کوئی جیسے زمیں پر اترے مسکراہٹ میں عجب نشہ ظفریابی کا آسماں کم قدوقامت میں تھا تجھ سے اس دن
عابدہ تقی نے بے نظیر کے آخری لمحوں کا احوال کچھ یوں بیان کیا ہے:
وہ دستِ سیمیں ہمیں الوداع کہتا ہوا لبوں پہ کھلتا تبسم حیات افزا وہ کلائی محوِ تکلم ہوا میں پرچم سی
غزل کے خوش رنگ و تازہ کار شاعر نذیر قیصر نے غزل کی ہی شکل میں نذرانہ پیش کیا:
پھر لہو صبح کا ستارہ ہوا پھر وہی سانحہ دوبارہ ہوا آسماں آنسوں میں ڈوب گیا سرخ رو شام کا کنارہ ہوا
ثروت زہرا نے بھی شام کی سرخیوں کا منظر عمدگی سے بیان کیا ہے:
ہر روز شفق کی سرخی میں میں ہر آنگن میں پھیلوں گی تم جسم کو گولی مارو گے میں روح کی صورت ابھروں گی
نذیر قیصر نے فقط شام کو سرخ رو دکھایا تھا، فہمیدہ ریاض نے پوری قوم کو نواز دیا:
یہ نام جگمگا رہا ہے آج چار کھونٹ میں سلام بے نظیر، آج ہم بھی سرخ رو ہوئے
شاہدہ حسن نے لمبی بحر میں بڑے رواں دواں اشعار لکھے ہیں:
ابھی رات ہی کا اندھیر ہے، ابھی صبح ہونے میں دیر ہے مری ارضِ جاں تری خیر ہو، یہ چراغ کس نے بجھا دیا
اس موقعے پر پیر گولڑہ شریف نے بھی ایک طویل غزل لکھی ہے:
یہ تختِ فاخرہ پہ تاجدار بیٹھے ہیں کہ تیرِ وقت کی زد میں شکار بیٹھے ہیں
تو پھر الطاف بھائی کسی سے کیوں پیچھے رہتے؟ یہ اور بات کہ انھیں شاعری کے نہیں، صرف حوصلہ افزائی کے نمبر دیے جا سکتے ہیں:
اور ہوا دھماکا زور سے پھر اور باپ سے وعدہ کرنے والی وعدوں کو پورا کرتے کرتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوئی
اسد رضوی نے اپنی مختصر نظم میں ایک ماہر مصور کی طرح چند برش سٹروکس سے دل کو چھو لینے والا منظر کاڑھا ہے:
پیڑ زیتون کا ہوا زخمی کرگسوں کے پلید پنجوں سے شاخِ انجیر سر برید ہوئی امن کی فاختہ شہید ہوئی
اور آخر میں افتخار عارف کے دعائیہ اشعار پڑھیے جو ایک گمبھیر تان کی طرح اٹھ کر فضا میں پھیل جاتے ہیں:
یہ بستیاں ہیں کہ مقتل، دعا کیے جائیں دعا کے دن ہیں مسلسل، دعا کیے جائیں غبار اڑاتی، جھلستی ہوئی زمینوں پر امنڈ کے آئیں گے بادل، دعا کیے جائیں
ظاہر ہے کہ یہ تمام مثالیں موضوعاتی شاعری کی ہیں جو ایک جاں کاہ صدمے کے فوری ردِ عمل میں تحریر کی گئیں تھیں، اس لیے ان میں کسی اعلی فن پارے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ پھر بھی اس مختصر جائزے سے ہمارے شعرا کی حساسیت، جذبے، اور خلاقی کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔