کچھ مہینے پہلے کی بات ہے کہ جب ملک کے کئی شہروں میں جعلی ادویات کا ایک بھرپور اسٹاک ضائع کیا گیا تھا اور اس میں مختلف فیکٹریوں سے بھی ادویات سے متعلق لوازمات کو ضائع کیا گیا تھا کئی کمپنیوں کو سیل بھی کیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی کچھ امواتیں ہوئیں تھیں اور آج پھر پنجاب میں کھانسی کا شربت پی کر زندگی چاہنے والے لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں ۔ میڈیا کے مطابق گوجرانوالہ شہر اس سے بہت زیادہ Effectedہے۔ یہ سب کیسے ہوتا ہے اور کیوں ہو رہا ہے اس کا جواب توصوبائی محکمہ صحت سے متعلق ارباب ہی دے سکتے ہیں اور اس کی بڑی ذمہ داری وفاقی محکمہ صحت پر بھی عائد ہوتی ہے۔
کسی بھی بیماری کی صورت میں عوام ظاہر ہے کہ ڈاکٹر اور دوائی کی طرف دوڑتے ہیں مگر ہمارے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ دوائی کھانے یا پینے والے افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ لوگوں پر نئی دوائوں کے تجربے کئے جانے کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے، کمپنیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جلد از جلد جانچ کروائیں جن میں مریضوں کی موت واقع ہو گئی ہے۔ مریضوں پر جو دوائیں آزمائی جاتی ہیں اور ان کی وجہ سے جو اچانک اموات ہوتی ہیں ان میں زیادہ تر دیسی دوائی کمپنیوں کی دوائی ہی ہوتی ہے ۔ ڈاکٹروں کا بھی فرض ہے کہ مستقل اور آزمودہ دوائوں کا ہی استعمال جاری رکھیں نہ کہ نئے نئے دوائوں پر تجربات کرکے اور مریضوں کو استعمال کرکے ان کی زندگی سے کھیلا جائے۔
دواؤں کے کاروبار سے وابستہ لوگ عام آدمی کو پیسہ جمع کرنے کا غلہ سمجھ کر اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور وہ ڈاکٹرز بھی ان کی مدد کرتے ہیں جنہیں عوام خدا کے بعد اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے ان کے پاس علاج کے غرض سے جاتے ہیں۔ یعنی اس ہلاکت کے اس گناہ اور جرم میں دوا بنانے والے اداروں اور ان کی دوائوں کا مریضوں پر اثر دیکھنے والے ڈاکٹرز اور دیگر بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہوتے ہیں ، اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ابتدائی تجربہ کیلئے بنے ہوئے اصول اور قانون نہایت کمزور ہیں۔
اس صدی کا بڑا المیہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی جو کہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں، مگر اس فیلڈ کو چند مفاد پرست، ناجائزمنافع خور، حریص قسم کے لوگ غلط طور پر استعمال کرکے تباہی پھیلانے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔ ادویات(دوائیں) جو لوگوں کے دکھ درد اور تکالیف سے نجات کے لئے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہوتا ہے لیکن حضرتِ انسان نے اسے لوٹ مار اور راتوں رات امیر بننے کے لالج میں اس عظیم اور گراں قدر تحفے کا غلط استعمال کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ چند دن پہلے اور اب پھر اس کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ صحت مند معاشرہ قائم کرنے کی کوششوں میں ایسی دوائیں دھچکا ہیں جن سے لاکھوں زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ تحقیق کاروں نے خبر دار کیا ہے کہ جعلی دوائوں کے خلاف فوری کاروائی کیا جائے، تاخیر کی صورت میں لاکھوں افراد خاص طور پر ملک کے نونہالوں اور باقی ماندہ لوگوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑ سکتیں ہیں۔
Smuggling
پاکستان سمیت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کی چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی ادویات جعلی اور نقلی ہے۔ ایسے ہی نقلی دوائوں کی وجہ سے موجودہ سالوں میں پاکستان سمیت چین میں بھی ہلاکتیں ہوئیں ہیں، کہا جاتا ہے کہ چین اور پڑوسی ملک بھارت جعلی دوائیں تیار کرنے میں سرِ فہرست ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں نقلی دوائیں خریدنے اور بیچنے کے کاروبار میں سات سو فیصدتک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق عالمی ادارۂ صحت اور یورپی یونین میڈیسن کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جعلی ادویات تیار ہوتی ہیں اور ان ممالک کی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی وہ دوائیں اصل نہیں ہوتیں۔ سرحدوں پر جعلی دوائوں کی اسمگلنگ کی مقدار سب سے زیادہ تصور کی جاتی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جعلی دوائوں کا کاروبار دنیا بھر میں پھیل گیا ہے اور اسی خاص وجوہ کی بناء پر اس کے نتائج پاکستان سمیت چین میں بھی کہیں کہیں دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس رپورٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ رواں برس انہیں جعلی ادوائوں کی وجہ سے پاکستان میں سو سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں بے ایمانی زیادہ اور ایمانداری کم پائی جاتی ہے، اگر سخت اقدام کا اعلان بھی ہو جائے تو وہ نافذ کیسے ہونگے؟ یہ سوال زبان زدِ عام پر ہوگا ۔ میڈیکل کا نمائندہ (Representative)پہلے ڈاکٹرز سے مل کر ان کو بتاتا ہے کہ اس کی کمپنی کے ذریعہ بنائی گئی دوائوں سے کیا کیا فائدہ ہوتا ہے، اور دوائوں کے سیمپل بھی ڈاکٹرز کو مہیّا کیا جاتا ہے ، پہلی ملاقات کے بعد بھی اگر ڈاکٹرز صاحبان وہ دوا تجویز نہیں کرتے تو پھر دوسرے ڈاکٹروں کی مثال دے کر انہیں کنوینس کیا جاتا ہے ، اور یوں دوائوں کا کاروبار چلنے لگتا ہے۔ اس لئے ہر مریض کو چاہیئے کہ اگر تعلیم یافتہ اور باشعور ہے تو اور نہیں ہے تو بھی ، اپنے ڈاکٹرز کو یہ بتانے پر مجبور کرنا چاہیئے کہ اس نے اس کے جسم کے اندر کونسا انجکشن لگایا ہے، یا کون سی دوائی کھانے یا پینے کو دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھا جائے کہ جو دوائی اسے دی گئی ہے اس کا نام کیا ہے تاکہ خدا نا خواستہ اگر دوائی کھانے کے بعد کوئی مسئلہ درپیش ہو تو دوائی کا نام یاد رہنا نہایت ضروری امر ہے جس کی وجہ سے یہ معلوم ہوگا کہ یہ دوائی کس مرض کیلئے تھی اور کس مرض کیلئے دے دی گئی ہے۔
Medical Stores
اکثر میڈیل اسٹوروں پر دیکھا گیا ہے کہ مریض ڈاکٹرز کی دی ہوئی دوائی کی پرچی لیکر جاتے ہیں مگر ان کے پاس وہ دوائی دستیاب نہیں ہوتی تو وہ بھی مریض کو فورس کرتے ہیں کہ اسی مرض کیلئے یہ دوسری دوائی ہے لے جائیں ، اور یوں ڈاکٹری نسخے کو پسِ پشت ڈال کر مریض کو اس سے ملتی جلتی ناموں والی دوسری دوا تھما دی جاتی ہے ، اور یوں شعور سے نابلد افراد وہ دوائی خرید لیتے ہیں جس کا خمیازہ بھی وہ بالآخر خود ہی بھگتاتے ہیں۔عام آدمی دونوں ہی طرف سے ایسی مصیبت میں گِھرا ہوا ہے ، اب کس کی مانی جائے وہ اسی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اب مریض بیمار ہونے کے بعد بھی شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے کہ دوائیں نہیں کھاتے تو بھی مسئلہ اور کھائی جائے تو بھی مسئلہ۔
اس بابت راقم کے خیال میں پارلیمنٹ میں صحت کے متعلق قابلِ قدر بل پیش ہونا چاہیئے اور اس کی منظوری کے بعد اور رپورٹ کے اصل حقائق کے مطابق نگرانی رکھنے یا کرنے والوں کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو اس پرسخت کاروائی کو عملی جامہ پہنائے اور کمزور اور لچکدار قانون کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دور کرتے ہوئے سخت احکامات پر عمل در آمد کو یقینی بنائے تاکہ اس ناسور کا مکمل سدِّباب ہو سکے تاکہ مریض اس کشمکش کی صورتحال سے نکل سکے۔