پاکستانی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اس میں اکثر و بیشتر تجزیے اور تبصرے اپنی سیاسی وابستگی ، ذات کی تشہیر اور مخصوص سوچ کی علمبرداری کے پسِ پردہ پیش کئے جاتے ہیں۔ ان میں حقائق کو اپنی خواہشوں کی میزان میں تولا جاتا ہے اور انھیں ذاتی مفادات کے تابع رکھا جاتا ہے۔ ان میں وہ کچھ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جو تبصرہ نگار کی اپنی ذہنی سوچ کا عکاس ہوتا ہے۔ حقائق کو حقائق سمجھ کر پیش کرنے کی روائت ہمار یہاں بہت کمزور ہے، سچ تویہ ہے کہ ذاتی سوچ کو بڑی مشاقی سے عوامی سوچ کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے ، مقتدر حلقوں کی خوشنودی اور اپنی سیاسی وابستگی بھی تجزیوں میں سدِ راہ بنتی ہے لہذا اکثر و بیشتر تبصرے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے کئے جاتے ہیں۔
ان میں ملکی مفاد یا سیاسی نطام کی بہتری کے کوئی امکانات پوشیدہ نہیں ہوتے بلکہ یہ تجزیے کسی مخصوص گروہ اور سیاست دان کو خوش کرنے کی نیت سے کئے جاتے ہیں تا کہ گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے اور اپنے مفادات کا تحفظ بھی ہو جائے۔ ان تجزیوں سے ایک خا ص فضا تخلیق کی جاتی ہے تا کہ مقتدر حلقے اگر کوئی چارہ رگری کا مجرب نسخہ استعمال کرنا چاہیں تو یہ تبصرے ان کی معاونت بھی کریں اور ان کے لئے ایسے اقدامات کو حق بجانب ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کریں۔ آپ سارے مارشل لائوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں مارشل لائوں سے قبل ایک خاص فضا تیار کی جاتی رہی ہے اور ایک مخصوص لابی حکومت کے کرپٹ اور نا اہل ہونے کا ڈھول پورے زور سے بجاتی نظر آتی ہے تا کہ مارشل لاء کا اقدام لوگوں کے لئے حیرانی کا باعث نہ بن سکے اور وہ اس اقدام کو بخوشی قبولیت کی سند عطا کر دیں۔۔آج بھی ایسا ہی ہو تا ہوا نظر رہا ہے الیکٹرانک میڈیا اور ، اخبارات ورسائل اور دوسرے ذرا ئع کے ذریعے سے موجودہ حکومت کی ایسی درگت بنائی جا رہی ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔
روز نت نئی کہانیاں اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور روز نئے نئے سکینڈلز ہوا میں اچھاے جاتے ہیں جن کا واحد مقصد اس حکومت کو ناکوں چنے جبوانا اور اس کی شہرت کو داغدار کرنا ہوتا ہے۔عجیب صورتِ حال ہے کہ جو کہانی ایک ماہ قبل شروع کی جاتی ہے وہ قصہ پارینہ بن جاتی ہے اور سنسنی خیزی کے لئے کو ئی نیا موضوع چن لیا جاتا ہے اور میڈیا پر ایک ایسا عدالت انگیز ماحول تخلیق کیا جاتا ہے جس میں حکومت پر الزامات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا اور حکومت کو مجرم ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں اس لئے قائم کی جاتی ہیں تا کہ عوام کو ملکی معاملات سے با خبر رکھا جائے، انھیں اپنے پروگرام سے روشناس کروا کے انھیں اپنا ہم خیال بنایا جائے ،انھیں شریکِ اقتدار کیا جائے اور یوں جمہوری طریقے سے اقتدار کی منزل کا حصول ممکن بنایا جائے۔
پاکستان میں بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں جو صرف کاغذوں کی حد تک قائم ہیں اور عوام میں ان کی کوئی پذیرائی نہیں ہوتی اور جنھیں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اپنے مفادات کے تخفظ کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ان جماعتوں کا مقصد نہ تو انتخابات لڑنا ہوتا ہے اور نہ ہی خدمتِ خلق اور عوام الناس کے مفادات کے اعلی و ارفع مقاصد کا حصول ہوتا ہے بلکہ ان کا واحد مقصد کسی نہ کسی بہانے سے اہلِ اقتدار طبقوں کی توجہ حاصل کر کے اپنے مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ انتخابات کا وقت قریب آتا ہے تو پھر یہ جماعتیں کسی اتحاد کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں تاکہ دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں کے سہارے خیرات کا ایک آدھ ٹکڑا انھیں بھی مل جائے اور ان کے وارے نیارے ہو جائیں۔ 1977کے انتخابات کے بعد سے یہ طریقہ واردات ایک مجرب نسخے کی صورت اختیار کر گیا ہے اور اسے ہر انتخاب کے وقت آزمایا جاتا ہے۔
Pakistan Elections
اس نسخے کے حکیم اور تخلیق کار اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھ جاتے ہیں اور حسبِ ضرورت سیاسی جماعتوں کا اتحاد تشکیل دے دیتے ہیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے حاشیہ بردار کچھ نشستیں جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں اور یوں اسٹیبلشمنٹ کی موج مستیوں کی طرف کسی بھی حکومت کو دیکھنے کی جرات نہ ہو سکے۔ کٹھ پتلیوں سے جرات مندانہ موقف کی امید رکھنا الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہوتا ہے۔ کٹھ پتلیوں سے ملکی مفادات کے تحفظ کی آس لگانا اور جمہوری روایات کی مضبوطی کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کٹھ پتلیوں کا واحد کام ناچنا ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی انگلیوں پر ناچ کر اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہی ہیں۔ جمہوری اندازِ فکر کے لوگ کٹھ پتلیاں نہیں ہوتے کیونکہ انھیں عوام الناس کی تائید حاصل ہوتی ہے اور وہ بوقتِ ضر ورت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں چیلنج کرتی ہیں اور اہلِ نظر کی یہ ادا سٹیبلشمنٹ کو گوارا نہیں ہوتی۔ بات سیاسی جماعتوں کی ہو رہی تھی جو کسی دوسری جانب نکل گئی۔ سیاسی جماعتوں نے اگر الیکشن میں شمولیت نہیں کرنی تو پھر سیاسی جماعت بنانے کا مقصد کیا ہے۔ کیا یہ پریشر گروپ ہیں جن کے پریشر پر سیاسی فوائد حاصل کئے جانے ہیں یا لوگوں کی آرزئوں کی تسکین کرنی ہے۔ کچھ جماعتیں تو ایسی ہیں جو جاگیرداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں قائم کر رکھی ہیں تا کہ الیکشن کے دنون میں اسمبلی کی نشست جیت کر پاکستان کے فیصلوں میں شریک رہیں اور اپنا مالی حصہ حکومت سے وصول کرتے رہیں۔
عمران خان کے 30 اکتوبر 2011کے جلسے اور علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے 23 دسمبر 2012کے حالیہ جلسے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پالتو تجزیہ نگاروں کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ انھیں ایک انجانا خوف ہے جو اندر ہی اندر انھیں کھائے جا رہا ہے کہ کہیں میاں برادران کا تختِ لاہور طوفانی لہروں کی نظر نہ ہو جائے۔ تجزیہ نگاروں کی میاں برادران سے صرف اس حد تک دلچسپی ہے کہ ان کے ذاتی مفادات ان کی چوکھٹ سے پورے ہوتے رہیں۔ انھیں میاں برادران کی نہیں بلکہ اپنی روٹی روزی کی فکر دامن گیر ہے وگرنہ وہ تو میاں برادران کو بھی اپنے آقا و مولا جنرل ضیا الحق کی طرح بھو لتے دیر نہیں لگائیں گئے۔ جنرل ضیالحق کو صاحبِ بصیرت اور صاحبِ کردار ثابت کرنے کے لئے وہ کیسی کیسی دور کی کوڑی لایا کرتے تھے۔ اس کے اندازِ حکمرانی کے کیسے کیسے گن گایا کرتے تھے۔
اس کی انصاف پسندی کے کیسے کیسے ڈھنڈورے پیٹا کرتے تھے لیکن آج کل وہی نام ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اب فقط نام لینے سے تو نوازشوںکی بارش نہیں ہو سکتی لہذا انھوں نے بروقت فیصلہ کیا کہ اس نام سے اجتناب کیا جائے۔ رشتہ تو بنیادی طور پر مفادات کی حصول مندی سے شروع ہوا تھا لہذا جب مفاد کا پردہ ہی ا ٹھ گیا ہے تو پھر کیسا رشتہ کیسی دوستی۔ یہ ذولفقار علی بھٹو کی داستانِ حیات نہیں کہ جس کے ایک ایک پنے پر جیالوں نے اپنے لہو سے وفائوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔ محبت میں سودے بازی کا عنصر شامل ہو جائے تو محبت دھندلا جاتی ہے تبھی تو جیالوں نے بے لوث محبت کی ہے۔ شفاف اور اجلی محبت جس کی چاندنی آج بھی اہلِ نظر لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرتی ہے۔
PMLN
مسلم لیگ کے ووٹ بینک پر عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی یلغار تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کی جماعت تھی اور اسٹیبلشمنٹ اب کچھ نئی جماعتوں کو میدان میں اتار رہی تو ان کے ووٹ بینک کا متاثر ہونا فطری ردِ عمل ہے۔ مسلم لیگ (ن) چونکہ ایک مخصوص طبقے کی نمائندہ جماعت ہے جس میں سیاسی جدوجہد عنقا ہو تی ہے۔ وہ دولت کے بل بوتے پراپنی سیاسی دوکاندری چلاتے ہیں ۔ ان کے لئے جیلوں میں جانا اور زندانوں کی سختیاں برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا،نرم و نازک جسم زندانوں کے بے رحم ماحول میں کہاں زندہ رہ سکتے ہیں لہذا وہ زندانوں کی سیاست سے ہمیشہ اجتناب کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب 12 اکتوبر 1999کو جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نواز شریف کی حکو مت پر شب خوبن مار کرا سے برخاست کیا تھا تو کسی ایک شخص نے بھی احتجاجی جلسے کا اہتمام نہیں کیا تھا سب کے سب اپنے اپنے محلوں میں یوں سہم کے بیٹھ گئے تھے جیسے کوئی بلائے ناگہانی ان پر نازل ہو جائے گی۔
انھیں خدشہ تھا کہ اگر وہ سڑکوں پر نکلے تو کوئی عقاب انھیں اپنے پنجوں میں دبوچ کر انھیں شکار کرلے گا اور یوں ان کے لئے ایک ایسی شام کا آغاز ہو جائیگا جس کے اندھیروں میں زندہ رہنا ان کے لئے ممکن نہیں ہو گا لہذا وہ اپنے قائد کی حمائت میں باہر نکلنے سے ڈرتے رہے اور یوں ان کا قائد ان کی نظروں کے سامنے بڑی بے رحمی سے جلاوطن کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی پی پی کے وہ جیالے جن کی ساری عمر اپنے قائد سے محبتوں اور وفائوں کی دل آویز داستان ہے کیا وہ بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اپنی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ دیں گئے اور کسی ایسی جماعت کا ا نتخاب کرلیں گئے جو ان کے موقف اور سیاسی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انھوں نے اپنی ساری حیاتی ایک ایسے فلسفے کی نذر کی ہے جس میں عوامی حاکمیت اور تکریمِ انسانی کا اصول بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی اصول کی خاطر ان کی لیڈرشپ نے جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔
کیا وہ اپنے قائدین سے کیا ہوا وعدہ فراموش کر دیں گئے۔انھوں نے جس جاگیردانہ اور ظالمانہ معاشرے میں انقلاب کا خواب دیکھا تھا وہ خواب پی پی پی کے ہاتھوں ہی پایہ تکمیل کو پہنچے گا لہذا ان کی وابستگی کو بدلنا کسی بھی جماعت کے لئے ممکن نہیں ہے۔ پی پی پی کے جیالے پی پی پی کی اصل قوت ہیں اور ان کی یہی قوت پی پی پی کے وجود کی ضمانت ہے ۔جب تک پی پی پی کے جیالے پی پی پی کا دامن تھامے کھڑے رہیں گئے پی پی پی کو شکست دینا کسی بھی قوت کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔