جنوبی افریقہ کو دنیا میں نیلسن مینڈیلا کی ایسی رین بو قوم کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے جہاں ہر کوئی اپنی نسل اور ورثے پر فخر کرتا ہے لیکن کچھ سیاہ فام افریقیوں کے لیے ان کا رنگ ایک مسئلہ ہے۔
یونیورسٹی آف کیپ ٹان میں کی گئی حالیہ ایک تحقیق کے مطابق ہر تین میں سے ایک جنوبی افریقی خاتون گوری ہونے کی خواہشمند ہے اور اس کوشش میں وہ اپنی جلد کو بلیچ کر رہی ہے۔
مقامی موسیقار نوماسونتو منیسی بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنہوں نے اپنی جلد کو ہلکے رنگ میں بلیچ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف نئی جلد میں وہ خوبصورت لگ رہی ہیں بلکہ ان کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
منیسی نے کہا میں کئی برسوں تک کالی تھی لیکن میں خود کو دوسرے رنگ میں دیکھنا چاہتی تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ میں گوری ہو کر کیسی لگوں گی اور اب میں خوش ہوں۔
مقامی میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر منیسی کے اس فیصلے پر کافی تنقید ہو رہی ہے لیکن تیس سالہ موسیقار نے بتایا ہے کہ اپنی جلد کا رنگ بدلنے کی کوشش ان کی ذاتی پسند ہے۔
منیسی کا کہنا ہے کہ ان پر تنقید کیوں ہو رہی ہے، یہ سمجھ سے باہر ہے۔ وہ کہتی ہیں یہ میرے اپنے آپ پر یقین کرنے کا معاملہ ہے۔میں سفید فام نہیں ہوں اور انگریزی بھی ٹھیک سے نہیں بول پاتی۔ میرے بچے بھی سیاہ فام ہیں۔ میں نے تو اپنا ظاہری رنگ تبدیل کیا ہے۔
رنگ کی تبدیلی کا یہ عمل ارزاں بھی نہیں۔ منیسی نے بتایا ہے کہ جلد کے علاج کے ہر سیشن کے لیے انہیں تقریبا پانچ ہزار رینڈ خرچ کرنے پڑے۔ منیسی اس دوران بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہی مہنگی کریموں کا استعمال بھی کرتی رہیں، تاہم ڈاکٹروں کے مطابق یہ کریمیں بھی پوری طرح محفوظ نہیں ہیں۔
میں کئی برسوں تک کالی تھی لیکن میں خود کو دوسرے رنگ میں دیکھنا چاہتی تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ میں گوری ہو کر کیسی لگوں گی اور اب میں خوش ہوں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کریم کے استعمال سے بلڈ کینسر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ لیویمیا کے علاوہ جگر اور گردے کے کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری جلدی بیماریاں بھی بڑھی ہیں۔
یونیورسٹی آف کیپ ٹان کے سینیئر محقق ڈاکٹر لیسٹر ڈیوڈز کہتے ہیں یہاں کے زیادہ تر لوگ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے والی مصنوعات میں شامل نقصان دہ اجزا کے بارے میں بالکل نہیں جانتے اور یہ پریشان کن ہے۔ ہمیں ان خطرناک مصنوعات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہوگا۔
ڈیوڈز کے مطابق گزشتہ چھ سال میں جہاں سکن بلیچ سے متعلق مصنوعات کی مارکیٹ تیزی سے بڑھی ہے وہیں کئی سال تک بلیچ کرانے والے لوگوں کی جلد خراب ہونے کے معاملات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق خراب جلد کی شکایت کرنے والے مریض مدد مانگنے تو آتے ہیں لیکن ان کی جلد کو پھر سے صحیح نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود لوگ اب بھی ان مصنوعات کے نقصان دہ اثرات کو قبول نہیں کرتے۔
افریقہ میں سفید فام جلد کی مقبولیت کے رجحان کی شروعات کب ہوئیں یہ واضح نہیں ہے۔ محققین کے مطابق اس کی جڑیں نوآبادیاتی دور میں ہو سکتی ہیں جب گوری جلد کو ہی خوبصورتی کی علامت خیال کیا جاتا تھا۔
جنوبی افریقہ میں ایسی خواتین کی تعداد بڑھی ہے جو اپنے چہرے کی جلد کا رنگ ہلکا کر چکی ہیں اور ان میں سے بعض کے چہروں پر نقصان دہ کیمیکل کے استعمال سے جلنے کے نشان بھی نظر آتے ہیں۔
میں ہر دن دعا کرتا ہوں اور خدا سے پوچھتا ہوں کہ تم نے مجھے کالا کیوں بنایا۔ مجھے اپنی کالی جلد بالکل پسند نہیں ہے۔۔۔کالے لوگ خطرناک مانے جاتے ہیں، جب سے میری جلد کا رنگ تھوڑا بہتر ہوا ہے لوگ مجھے احترام سے دیکھنے لگے ہیں۔
تاہم ایسی خواتین بلیچ کرنے کی وجہ بتانا نہیں چاہتیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق ان میں سے بعض کو اپنی کالی جلد سے نفرت تک ہوتی ہے۔ یہ کیفیت صرف خواتین میں ہو ایسا نہیں ہے بلکہ مرد بھی گورا ہونے کی ہر ترکیب اپنا رہے ہیں۔
ہیئر سٹائلسٹ جیکسن مارسلے نے بتایا کہ وہ گزشتہ دس سال سے اپنی جلد بلیچ کرنے کے لیے خاص انجکشن لے رہے ہیں۔ مارسلے کہتے ہیں میں ہر دن دعا کرتا ہوں اور خدا سے پوچھتا ہوں کہ تم نے مجھے کالا کیوں بنایا۔ مجھے اپنی کالی جلد بالکل پسند نہیں ہے۔
انہیں کالی جلد پسند کیوں نہیں؟ اس کے جواب میں مارسلے کہتے ہیں،کالے لوگ خطرناک مانے جاتے ہیں، جب سے میری جلد کا رنگ تھوڑا بہتر ہوا ہے لوگ مجھے احترام سے دیکھنے لگے ہیں۔
عالمی ادار صحت نے جون میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق افریقہ میں گورا ہونے کی چاہت میں کریموں جیسی مصنوعات کا سب سے زیادہ استعمال نائجیرین کرتے ہیں۔ نائیجیریا میں تقریبا 77 فیصد لوگ ایسی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ٹوگو میں یہ شرح 59 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ میں ایسے لوگوں کی تعداد 35 فیصد ہے جبکہ مالی میں 25 فیصد لوگ گورا بنانے کا دعوی کرنے والی مصنوعات استعمال کر رہے ہیں۔