کیا ہم وطن عزیز میں کبھی کوئی جمہوری فلاحی حکومت نہیں دیکھ سکیں گے ؟یہ ہے وہ حقیقت جسے مایوسی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور آئندہ حالات کا درست تجزیہ بھی ذوالفقار علی بھٹو بھی برطانوی یونیورسٹی کا فاضل تھا لیکن جمہوری مزاج سے تہی دامن تھا۔
چند دن کی عارضی زندگی کو بڑے ظالمانہ طریقے سے گزار کر انجام کو پہنچا۔ اس کی بیٹی بے نظیر بھی آکسفورڈ کی پڑھی لکھی تھی جو مسٹر ٹین پرسنٹ پھر ہنڈرڈ پرسنٹ کے ساتھ بیاہی گئی، جس کی برکت سے اس نے ایک بھی کام قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کا نہیں کیا مال ودولت کی لوٹ مار اس کی حیات عارضی کا ٹائٹل رہا۔
اس کے وطن کے باسی دو وقت کی روٹی کو ترستے رہے اور وہ برطانیہ ، امریکہ اور دوبئی میں فرسٹ کلاس لائف سے انجوائے کرتی رہی اچانک موت کے ہاتھوں وہ اپنے دوبئی کے پرتعیش محل کو ایک نظر دیکھ بھی نہ سکی اب بلاول شہزادے کی باری آئی یہ نوجوان جس کی آنکھ ہی اس مترف ماحول میں کھلی آکسفورڈ کا پڑھا لکھا نوجوان جو یہاں کے قانون سے پوری طرح واقف ہے۔
اس نے اپنی تاجپوشی پر جو جذباتی بلکہ احمقانہ تقریر کی کوئی عقلمند انسان اسے قانون سے واقف انسان کے خیالات قرار نہیں دے سکتا کیا ایسی بے وقوفانہ تقریریں کرنے والے مستقبل کے لیڈر سے کوئی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس ملک میں جہاں اس کاباپ ایوان صدر میں پانچ سال سے ملک وقوم کے خون پسینے کی کمائی کولوٹ رہاہے، جو بقول اس کے بے نظیر کے قاتلوں کو جانتا ہے وہ کچھ نہیں کرسکاتو وقت کا بڑا قاضی کیا کرے۔
Bilawal Bhutto
جو ایک بڑے چورکے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کرتا ہے تو بلاول کا باپ اسے وزیر اعظم بنا دیتا ہے (دیکھئے چیف جسٹس کا بیان آج کے جنگ ص٣۔رینٹل پاور کیس میں جس کے خلاف کاروائی کرنے کا کہا اسے وزیر اعظم بنادیا) بے نظیر ، زرداری اور اب بلاول جس ملک کے مالک اور لیڈربنے بیٹھے ہوں جہاں روٹی کپڑا اورمکان کے دلفریب جھوٹے اور مکارانہ نعرے کو اب بھی استعمال کیا جاتا ہو۔
جہاں کے حکمرانوں کو اپنے عوام کو چوستے ہوئے ذرا سی بھی شرم نہ آتی ہو،کیا وہ ملک عزت کے ساتھ جینے کے قابل ہے ؟ پینسٹھ سالہ ملکی تاریخ میں لے دے کے ایوب خان اور نواز شریف کے دور ہی ملک میں خوشحالی لانے والے تھے۔
ایک کو ڈکٹیٹر کہہ کر نعرہ بازی اسی آکسفورڈ کے نوجوان اور ایوب کو ڈیڈی کہنے والے وکیل نے کی اور دوسرے کو فوج اوراسٹیبلشمنٹ کے نمائندے اسحق خان نے ڈکشنری کی مددلے کر محروم اقتدار کر دیا۔
کیا قوم اب بھی اپنی سمت درست نہ کرے گی ؟کیا اب بھی پی پی پی کو ووٹ دے کر اہل وطن کو حالت نزع میں پہنچانے میں مدد کرے گی یا ہوش کی آنکھ کھول کر ریاست بچاؤ اور روٹی وکپڑا اورمکان کے فریب کو سمجھنے کے قابل ہوسکے یا نہیں ؟ اے دوست لب کشائی کا موقع نہ دے مجھے افسانہ میرے دل کا بڑا درد ناک ہے۔