تلاش آدمیت

Universe

Universe

ہر چند کائنات دو عالم میں اے جگر
انسان ہی ایک چیز ہے انسان مگر کہاں
انسان خالق کائنات کی خوب صورت تخلیق۔ایک ایسی تخلیق جسے فرشتوں پر فضیلت دی گئی ،یہ کائنات ایک پر پیچ تماشگاہ اور اس تماش گاہ کا واحد تماشائی انسان ہے۔انسان کو ایسی صفات سے نوازا گیا کہ وہ باہر کا منظر اپنے باطن میں موجود پاتا ہے وہ کائنات کے رموز سے آشنا اور اسی کے لئے یہ سب جلوے ہیں وہی اشر ف ا لمخلوقات ہے،باعث تخلیق بھی اور حاصل تخلیق بھی۔انسان لفظ انس سے نکلا ہے اس کے معنی محبت کے ہیں یہی وہ خوبی ہے جس کی بناء پر اسے رب نے تخلیق کیا خالق کی تخلیق سے محبت ،تخلیق کے خالق سے محبت ہے،وجہ تخلیق کو جاننا ہی خالق کے قریب کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان جس کو انسان کے ساتھ اشرف المخلوقات کا درجہ بھی ملاوہ اس پر کتنا پورا اترا کیا اس نے اس حق کو نبھایا؟جس کے باعث وہ مسجود ملائک ٹہرا تھا ہر گز نہیں وقت رفتہ نے اس کے دل پہ تعصب کی گرد جما دی اس کے شفاف آئینے جیسے دل کو دھندلا کر دیا۔

انسان محض آدم کی اولاد بن کر رہ گیا اور وہ وقت لوٹ آیا جب ہابیل اور قابیل کے درمیان تفرقہ ہوا تھا اور اس بناء پہ انسانیت کا درجہ گر گیا تھا ۔دنیا کی ہوس کاری اورانانیت نے اس کو ایک ایسے سحر میں جکڑا کہ وہ اپنے سوا سب کچھ بھول گیا ۔نفسا نفسی کی دوڑ نیاسے رب سے دور اور شیطان سے قریب کر دیا وہ دوسروں کو ان کے حق سے محروم کر کے اپنے نفس کی تسکین چاہتا ہے وہ خدا کو اور اس کے ا حکامات کو فراموش کر چکا ہے۔نہ وہ حقوق العباد کی پابندی کرتا ہے نہ حقوق اﷲ پہ کاربند ہے ۔حتی کہ اگر اللہ انسان سے پوچھے کہ تم جنت میں جانا پسند کرو گے یا دوزخ میں تو وہ فورا کہہ اٹھے گا جناب جہاں دو پیسے کا فائدہ ہو وہاں الغرض لامحالہ سی بات ہے کہآج کے انسان کے لیئے اپنے مفاد کیلئے اپنے بھائی کا خون بہانا بھی جائز بن گیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ مالک سے دوری ہے۔

آج کا معاشرہ جس کرب مسلسل سے گزر رھا ھے ۔اس کرب سے رہائی کیونکر ممکن ہے؟کبھی تنہائی میں بیٹھ کر اپنا محاسبہ کریں تو شائد کوئی حل نکل آئے۔بلاشبہ دکھ اور سکھ زندگی کے حسین امتزاج کا نام ہے جہاں اگر غم کے اندھیرے ہیں تو اس میں چھپی ایک امید کی کرن ضرور جگمگاتی نظر آیئگی۔بنظر غور دیکھیں تو انسان کی انسانیت کو اسلام کی دوری اورآسائشوں کی ہوس نے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے لہذا اس کا نتیجہ بعض اوقات مایوسی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور ایک مقام ایسا آ جاتا ہے کہ یہ مایوسی طلب موت کی صورت میں سامنے آتی ہے یقین کی کمی اور وسوسے مایوسی کی ابتدا ہیں ۔کیا ھم مایوس ہیں۔

Quran

Quran

اپنے حکمرانوں سے ،خود سے ، یا اپنے کئے گئے فیصلوں سے ،یا پھر نعوذباللہ خدا کی ذات سے۔چونکہ مایوسی بغاوت کے عنصر کو جنم دیتے ھے اس وجہ سے اسے گناہ قرار دیا گیا قرآن مجید انسان کی روح کے سکون اور اس کی شعوری بیداری اس کی زندگی کے لئے ایک روشن مینار ہے ۔ یہ اس اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام ہے جس کی آمد سے انسانیت اندھیرے سے نکل کر روشنی میں داخل ہوئی۔

اگر ھم قرون اَولی کا جائزہ لیں تو ہر دور میں رب کائنات نے انسان کو آزمائش میں ڈال کہ اس کے صبر کا امتحان لیا گویا اس سے یہ مقصود تھا کہ وہ انسان جسے فرشتوں پر فضیلت دی گئی وہ کس حد تک ثابت قدم ہے، ابراہیم علیہ السلام کو جب آتش نمرود میں ڈالا گیا تو ان کی ثابت قدمی نے آگ کو ُگل و گلزار بنا دیا۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوتماشائے لبِ بام ابھی

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے مگر اپنے رب کی رحمت سے نا امید نہیں تھے۔حضرت مریم علیہ السلام کی پاک دامنی پر شبہ کیا گیا مگر انہوں نے صبر کیا اوراپنے رب پر شاکر رہیں اور بالاآخر ِا’م نبی کے عہدے پر فائز ہوئیں۔اسمعیل کی پیاس سے سوکھتی زبان اور آگ ا ‘گلتا سورج رب کی رحمت نے زمزم کی صورت میں صحرا کو نخلستان بنا دیا۔

Allama Iqbal

Allama Iqbal

موجودہ دور میں جب انسان کسی مشکل میں مبتلا ہوتا ہے تو انتہا سے یادہ مایوسی اس کی یقین کی قوت میں کمی کا شناخساسہ ھے معاشرے میں نا امید لوگ نا صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ۔ضرورت خود میں سوئے اس انسان کو جگانے کی ھے جو عقل و شعور میں فضیلت رکھنے والا وہ انسان ہے جسے مالک نے اعلی درجہ عطا کیا تھا۔جسے اقبال نے مرد مومن کہا تھا ۔اس کی تلاش ھی ھمیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔سوچیں اور غور کریں۔

تحریر : ڈاکٹر فوزیہ عفت