آہ قاضی حسین احمد بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پروفیسر غفور کے جنازے کو کندھا دینے والا خود دوسروں کے کندھوں پر سوار ”لحد” میں جا بسا۔ قاضی حسین احمد 1938 میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مولانا عبدالرب نے قاضی صاحب کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تربیت کی۔ قاضی صاحب اپنی فیملی میں سب سے چھوٹے تھے۔ ایم ایس سی جغرافیہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد قاضی صاحب درس و تدریس سے منسلک رہے۔ ملازمت چھوڑنے کے بعد اپنا ذاتی کاروبار شروع کر دیا۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رہے۔
قاضی صاحب سب سے پہلے اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بنے اور پھر 1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ 1978ء میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ۔1987ء میں جماعت اسلامی کے امیر بنے اور 2009ء تک امیر رہے۔ جماعت اسلامی کے سب سے زیادہ بار امیر منتخب ہونے والوں میں مولانا مودودی (مرحوم) اور میاں طفیل محمد (مرحوم) کے بعد قاضی صاحب مسلسل چار بار جماعت اسلامی کے امیر رہے۔قاضی صاحب پہلی بار 1985ء میںسینٹ کے رکن منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ 1992ء میں سنیٹر بنے۔ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو عوام میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ”دھرنا” اور ”ملین مارچ” قاضی صاحب کی ہی ایجادات ہیں۔ قاضی صاحب جوانوں سے زیادہ جوان تھے۔ قاضی صاحب کا نعرہ ”ظالمو قاضی آرہا ہے ”عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہوا۔
یہ قاضی صاحب کی ہی شخصیت تھی جس نے شخصی آمروں کے خلاف جہاد جاری رکھا۔ان کے دھرنے کی وجہ سے حکومت نے ہر قسم کی ٹریفک روک دی۔ ہر داڑھی والے کو مشکوک سمجھا گیا۔ یہاں تک کہ پتوکی میں ایک صاحب کے پاس پولیس آئی اور کہا کہ آپ کاتعلق قاضی صاحب کی جماعت سے ہے۔ اس شخص نے انکار کرتے ہوئے کچھ سخت الفاظ استعمال کیے تو خود پولیس والوں نے کہا کہ تم کو شرم نہیں آتی کہ داڑھی رکھ کر قاضی ساحب کو برا کہتے ہو ۔ دل کا مریض شدید شیلنگ کے دوران دھرنے میں پہنچا۔ اسی طرح لٹن روڈ کی ویڈیو اور تصاویر ان کے مجاہدانہ کردار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
قاضی صاحب انتہائی ذمہ دار ، فرض شناس اور ان تھک شخصیت کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ بطور ڈرائیور کام کرنے والے لوگ حیران ہوتے تھے کہ یہ بندہ کام کے ساتھ ساتھ گاڑی کی رفتار بھی انتہائی تیز رکھتا ہے ۔ قاضی صاحب نے اسلامی جمعیت طلبا و طالبات، مدارس عربیہ ، شباب ملی اور پاسبان کو متحرک کرکے جماعت اسلامی کا دست و بازو بنا دیا۔ قاضی حسین احمد امت مسلمہ کے اتحاد کے سچے اور پکے داعی تھے۔
Palestine Killings
متحدہ مجلس عمل کا قیام اور انتخابات میں شاندار کامیابی قاضی صاحب کی انتھک محنت کا پھل تھا اور جب مجلس عمل فعال نہ رہی تو قاضی صاحب نے امید کا دامن پھر بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور ملی یکجہتی کونسل بنا کر اپنا ”اتحاد امت” کا مشن مرتے دم تک جاری رکھا۔ قاضی صاحب کشمیر، بوسنیا ، چیچنیا ، افغانستان ، برما ، سوڈان اور فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے۔ دنیا بھر کی تمام اسلامی اور جہادی تنظیمیں ان کو اپنا حقیقی سرپرست سمجھتی ہیں ۔ اسی وجہ سے برادر اسلامی ممالک میںآپ کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ قاضی صاحب کو اردو، انگریزی، فارسی، پشتو پر عبور حاصل تھا اور اکثر فرمایا کرتے تھے۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر قاضی صاحب سے میری جب بھی ملاقات ہوئی میں نے انہیں انتہائی نفیس انسان پایا۔ اخلاق و کردار میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ نظریہ پاکستان کے سچے اور پکے حامی تھے۔ وہ ایک بار جب اپنے کارواں کی قیادت کرتے ہوئے کراچی جا رہے تھے تو ہمارے بس سٹاپ پر ان کا خیر مقدم کیا اور ابھی وہ اپنی تقریر کر رہے تھے کہ اس دوران مغرب کی اذان ہو گئی تو انہوں نے نہ صرف اپنا خطاب ختم کیا بلکہ ملتان روڈ پر واقع گاؤں جمبر کی چھوٹی سے مسجد میں میرے ساتھ باجماعت نماز ادا کی جہاں نہ کوئی سکیورٹی نہ کوئی گارڈ۔
میں نے یہ عمل صرف قاضی حسین احمد میں ہی دیکھا ورنہ یہاں تو ایسے ایسے علما کرام دیکھے جاتے ہیںجو اپنے خطاب کی وجہ اکثر نمازیں چھوڑ دیتے ہیں۔ میرے بڑے بھائی نے بتایا کہ قاضی صاحب قصور کارواں لے کر آئے اور وہ بطور گائیڈ ان کے ساتھ تھے۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو میرے بھائی نے یہ سوچ کر سفر جاری رکھا کہ منزل قریب ہے وہاں نماز ادا کریں گے۔قاضی صاحب نے ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے کو کہا۔ میرے بھائی کی گاڑی کو کراس کرکے ایک ٹوٹی سی مسجد کے سامنے بریک لگائی اور ان سے ناراض ہوئے کہ تم کو نماز کا احساس نہیں ہوا۔ انہوں پہلے نماز ادا کی اور اس کے بعد دوبارہ سفر شروع کیا ۔
Qazi Hussain Ahmed
قاضی صاحب کی عوامی محبت ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ ایک بار متحدہ مجلس عمل کا کارواں کراچی سے چلتا ہوا لاہور جا رہا تھا ملک میں جگہ جگہ اس کارواں کا خیر مقدم کیا جا رہا تھا۔ ہمارے علاقے میں بھی اس کا استقبال کیا جارہا تھا جس کا سارا انتظام جماعت اسلامی کی مقامی قیادت نے کیا۔ انہوں نے کارواں کا استقبال سٹاپ سے دور کیا تھا جب کہ ہم لوگوں نے بھی ان کو سٹاپ پر روکنا چاہا تو سب سے آگے مولانا فضل الرحمن کی گاڑی تھی جب ہم اس کے سامنے آئے تو ان کے گارڈ نے بجائے گاڑی روکنے کے کٹ مار کر گاڑی بھگا لی مگر جیسے ہی قاضی صاحب کی گاڑی آئی توہم پھر گاڑی کے سامنے آگئے تو انہوں نے نہ صرف گاڑی روکی بلکہ باہر نکل کر میگا فون پر عوام سے خطاب کیا۔ ان کی یہ محبت دیکھ کر میں بہت خوش ہوا۔
قاضی حسین احمد کی وفات جماعت اسلامی کے لئے ہی نہیں پاکستان اور امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا نقصان ہے اور یقیناً جماعت اسلامی اور اسلام سے محبت کرنے والا ہر شخص قاضی صاحب کی وفات پر غمگین ہے لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کا ذائقہ ہر انسان نے چکھنا ہے۔ تاہم قاضی صاحب کی زندگی مسلمانوں کے لیے ایک بڑا اثاثہ تھی۔ آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔