کوئٹہ (جیوڈیسک) دھماکوں کے مزید دو زخمی چل بسے جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو انیس ہو گئی۔ ملی یکجہتی کونسل کا دھرنا 31 گھنٹے سے جاری ہے، دھرنے کے شرکا سے وفاقی وزیر سید خورشید شاہ اور گورنر بلوچستان کے مذاکرات ناکام ہو گئے۔
سیاہ چادروں میں لپٹی آہ و بکا کرتی مائیں بہنیں اور روتے بچے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے جمعہ کی دوپہر دو بجے سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ مظاہرین کسی صورت احتجاج ختم کرنے کو تیار نہیں۔ انتظامیہ نے رات گئے احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات بھی کئے جو بے سود رہے۔
مظاہرین اپنے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ کوئٹہ شہر کا کنٹرول فوج کے حوالے کرنے تک کسی صورت احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا31 گھنٹے گزرنے کے بعد وفاقی وزیر سید خورشید شاہ اور گورنر بلوچستان مظاہرین سے مذاکرات کے لئے پہنچے۔
اس موقع پر دھرنے کے شرکا نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ امام بارگاہ پنجاب میں خورشید شاہ اور گورنر بلوچستان نے ہزارہ برادری کے معززین سے ملاقات کی۔ خورشید شاہ نے دھرنے کے شرکا سے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔ انکا کہنا تھا کہ میتوں کی تدفین کر دیں، دھرنا بے شک جاری رکھیں۔ خورشید شاہ نے مظاہرین کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے مطالبات صدر اور وزیر اعظم تک پہنچا دیں گے۔
ایچ ڈی پی نے بھی آئی جی آفس کے سامنے تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ دھماکوں میں جان کھو دینے والوں کے لواحقین کا کہنا کہ وہ کس سے انصاف طلب کریں۔ کوئٹہ میں اس سے پہلے بھی متعدد واقعات میں ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا چکا ہے لیکن آج تک ان افسوسناک سانحات کا کوئی ملزم پکڑا نہ جا سکا اور نہ ہی ان واقعات کے تدارک کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے۔