پاکستان میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کی خون آشام ، بے رحم اور سفاک زنجیروں نے پاکستانی عوام کو اپنے آہنی شکنجوں میں اس بری طرح سے جکڑ رکھا ہے جس سے رہائی کی کوئی صورت بھی نظر نہیں رہی۔ یہ تسلط اور جکڑ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز اس دور سے ہو گیا تھا جب پاکستان کا قیام ایک حقیقت کی صورت میں شہود پذیر ہو نے والا تھا۔ برِصغیر کی تمام ریاستوں میں جاگیرداروں اور نوابوں کا راج تھا اور وہ اس بے رحم راج کا تسلسل چاہتے تھے۔ اس زمانے میں صوبہ پنجاب کے سارے جاگیر دار یونینسٹ پارٹی کے ممبر تھے جو کہ کانگریس کی مدد سے پنجاب پر برسرِ اقتدار تھی۔
1947کے آغاز میں جب جاگیرداروں نے یہ دیکھا کہ پاکستان کے قیام میں اب کوئی چیز بھی مانع نہیں رہی تو وہ سارے کے سارے جاگیردار چھلانگیں لگا کر راتوں رات مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور لہو لگا کر شہیدوں کا رتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے اپنی وفائوں کا ایسا دلکش سوانگ بھرا کہ وہ جو سالہا سال سے قیامِ پاکستان کی جدو جہد میں شب و روز اپنے لہو کا نذرانہ دے رہے تھے پچھلی نشسوں پر چلے گئے اور یہ نووارد پارٹی کے مالک بن بیٹھے۔ سچ تو یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کی کامیابی و کامرانی میں ان جاگیر داروں کا کوئی کردار نہیں تھا کیونکہ وہ تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے سخت ناقدین میں شمار ہو تے تھے۔ ایک متحدہ ہندوستان ان کا مطمہِ نظر تھا لیکن اس نظریے کو شکست سے دوچار ہونا پڑ رہا تھا لہذا اب ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ کانگریس کا ساتھ دیں کیونکہ ان کا مسکن تو وہ جگہ ہونی تھی جہاں پاکستان قائم ہونے جا رہا تھا۔
ان بدلتے حالات میں ان کی کوشش یہ تھی کہ وہ کسی طرح اس کاروان میں شامل ہو جائیں جس کی منزل پاکستان ہے تاکہ عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ وہ دل و جان سے پاکستان کے قیام کے خواہاں تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس تھی۔ وہ کسی کے بھی دوست نہیں تھے بلکہ وہ ذاتی مفادات کے اسیر تھے۔ اپنے اس منصوبے کو وہ کمال ہوشیاری سے رو بعمل لا رہے تھے اور عوام کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے تھے کہ وہی ان کے اصلی ہمدرد اور دوست ہیں اور انہی کی کوششوں سے پاکستان کا قیام ممکن ہو سکا ہے۔ ان کے بااثر ہونے میں تو کوئی شک نہیں تھا لہذا ان کے مسلم لیگ پر قابض ہونے کو بھی باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان سرداروں ، نوابوں اور جاگیر داروں نے مسلم لیگ پر قبضہ جما کر قائدِ اعظم محمد علی جناح کے قائم کردہ مقاصد کو بالکل الٹ کر رکھ دیا۔
Quaid E Azam
قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت میں بھی وہی عناصر سرگرم تھے جو پاکستان میں جاگیرداری نظام کی بقا چاہتے تھے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لہذا مسلم لیگ میں ان کی موجودگی میں جاگیر داری سوچ کا پنپنا ناممکن تھا۔ اب منصوبہ بندی یہ کی گئی تھی کہ وہ شخصیت جو ان کی راہ میں مزاحم ہے اسی شخصیت کو ہی راہ سے ہٹا دیا جائے تا کہ نہ رہے بانس نا بجے بانسری۔ ایک سازش تیار کی گئی اور اس پر بھر پور عمل در آ مد کر کے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ ٹوٹی ہوئی ایمبولینس میں سڑک کے کنارے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رحلت کیا اس بات کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ ان کا دن دھاڑے قتل کیا گیا تھا۔ ِ پاکستان کے قیام کے بعد سے دسمبر 1970کے پہلے عام انتخابات تک انہی سازشوں کے تانے بانے بنتے جاتے رہے اور عوامی ھاکمیت کا وہ تصور جو قیامِ پاکستان کی روح تھا اسے مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔ محلاتی سازشوں نے عوامی فلاح و بہبود کی جانب کوئی توجہ مرکوز نہ ہونے دی اور عوام کو محرومیوں کے ایک ایسے لق و دق صحرا میں بالکل برہنہ پا چھوڑ دیا جہاں ان کی ہلاکت یقینی تھی جبکہ بااثر لوگ خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ جاگیر داری پسِ منظر رکھنے والے سیاست دانوں کو جب یہ احساس ہو گیا کہ عوام میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کی بدولت وہ تنِ تنہا اپنے اقتدار کو قائم نہ رکھ سکیں گئے تو پھر انھوں نے فوجی جنتا سے ساز باز کر کے اپنے اقتدار کی دوامیت کو یقینی بنا لیا۔ پاکستانی سیاست کا یہی وہ طاقتور عنصر ہے جس کا آغاز 1958میں ہوا تھا اور جو اب بھی پاکستانی سیاست کا سب سے توانا عنصر ہے اور یہی دونوں گروہ باہمی گٹھ جوڑ سے اب بھی پاکستان پر بالسواسطہ یا بلا واسطہ حکمرانی سے بہرہ ور ہو رہے ہیں جبکہ عوام کا اقتدار کے ایوانوں سے نہ صرف کوئی گزر نہیں بلکہ اس کے فوائد سے بھی انھیں کوئی سروکار نہیں ہے۔
میں ذاتی طو ر پر 1958کے فوجی شب خون کو ایک ایسی سازش کے نقطہ آغاز سے تعبیر کرتا ہوں جس میں فوج نے غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور جاگیر داروں اور نوابوں کو اپنا حا شیہ بردار بنا کر اپنے غیر آئینی اقتدار کو مضبوط بنا لیا۔ عدالتوں نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لائوں کو جائز قرار دے کر عوام کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا۔ جنرل محمد ایوب خان نے اپنے فوجی شب خون کے بعد جاگیر داروں کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں کا نیا طبقہ بھی پیدا کر لیا تا کہ اقتدار کا فوجی ہاتھوں سے پھسلنے کا کو ئی امکان باقی نہ رہے۔ بائیس خاندانوں کا غلغلہ اسی زمانے میں عام ہوا تھا جس میں پاکستان کی ساری دولت انہی چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی تھی اور عوام محرومی اور تنگ دستی کی سولی پر لٹک رہے تھے۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے یہ ہاتھ ہر فوجی حکومت کے دست و بازو بنتے رہے اور فوجی جنتا سے اپنا حصہ وصول کرتے رہے اور یہ سلسلہ کہیں پر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب یہ ہاتھ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ انھوں نے پورے جمہوری نظام کو یرغمال بنا لیا ہے۔
Parliament
ستم بالائے ستم یہ کہ ان مخصوص گروہوں نے قومی مفادات کے نام پر فوجی جنتا کے ہر شب خون میں ان کا ساتھ دیا اور پھر آرام و سکون سے اپنی تجوریاں بھی بھرتے رہتے۔ یہ اپنے اپنے علاقوں میں فرعون بن کر عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں اور انسانی جذبوں کا خون کرتے ہیں۔ کسی میں اتنی مجال نہیں ہوتی کہ وہ پارلیمنٹ انھیں چیلنج کر سکے کیونکہ ان کے پاس سارے انتظامی اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ کے ممبر بھی ہوتے ہیں علاقے کی با اثر شخصیت بھی ہوتے ہیں ، جاگیردار بھی ہوتے ہیں اور دولت مندبھی ہوتے ہیں لہذا ان کے آہنی پنجوں سے بچ جانے کی کس میں قوت ہو سکتی ہے۔ عوام نسل در نسل ان افراد کے غیر انسانی سلوک کو برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس سے چھٹکارا حا صل کرنے کی کوئی راہ انھیں سجھائی نہیں د یتی کیونکہ وہ کمزور ہوتے ہیں اور کمزور کی ہار یقینی ہوتی ہے۔ ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے کے بعد جب جمہوری حکومتوں کا قیام عمل پذیر ہوتا ہے تو یہی وڈیرے سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر قومی مفادت کے نام پر آمروں کے وہ لتے لیتے ہیں کہ دل میں یہ احساس ابھرنا شروع ہو جاتا ہے کہ ان سے بڑا جمہوریت پسند شخص کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔
جو کہ جھوٹ اور فریب کے سوا کچھی نہیں ہوتا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی وسعتِ قلبی کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ بھی ایسے بے ضمیر عناصر کی خوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انھیں اپنی صفوں میں جگہ دے کر ان کے سارے غیر جمہوری اقدامات کو سندِ قبولیت عطا کر دیتی ہیں۔ آمرانہ ذہنیت رکھنے والے یہ لوگ چہرے بدل بدل کر عوام کے پاس آتے رہتے ہیں اور عوامی حقو ق کے پاسبان بن کر اپنا دکھڑا روتے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ایک دوڑ لگی ہوتی ہے کہ فلاں علاقے کا جاگیر دار اور سرمایہ دار ان کی جماعت میں شامل ہو جائے تا کہ اس علاقے میں اس جماعت کی سیٹ پکی ہو جائے۔
اس وقت پاکستام کی ساری قابلِ ذکر جماعتیں انہی افراد سے بھری پڑی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی خود پر یقین نہیں ہوتا اس لئے وہ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی جانب دیکھتی ہیں اگر سیاسی جماعتوں کے قا ئدین کو اپنی صلاحیتوں پر پختہ یقین ہو تو شائد پاکستانی سیاست کی بھگوڑے نما انسانوں سے جان چھوٹ جائے لیکن ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ سیاسی قیادتیں ابھی اتنے بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار ہمارے معاشرے کے انتہائی با اثر افراد ہو تے ہیں اور ان کے پاس ذرائع آمدنی کی فراوانی ہوتی ہے اسی لئے ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انہی کی صفوں میں شامل ہوں تا کہ ان کی شمولیت سے ان کی قوت میں اضافہ ہو جائے اور ان کی جیت کی راہیں کشادہ ہو سکیں۔ ہر جماعت کو یہ بھی خبر ہوتی ہے کہ جاگیر دار اور سرمایہ دار جوہرِ وفا سے عاری ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی سیاسی جماعتیں ان پر تکیہ کرنے سے باز نہیں آتیں کیونکہ ان کی جیت کا یہی راستہ ہوتا ہے اور اس راہ پر انھیں ہر حال میں چلنا ہوتا ہے۔
Tahir Ul Qadri
مفاد پرستوں کا یہ گروہ کسی نئی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ اس جماعت کے پروگرام کی کشش کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے مفادات کی وجہ سے کرتا ہے لیکن اس کے باجود بھی جماعتیں انکی آؤ بھگت کرنے سے باز نہیں آتیں جس سے جمہوری قدروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی وہ سورج طلوع ہو گا جب عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھنے کی بجائے انھیں بھی شریکِ اقتدار کیا جائے گا اور حقیقی جمہوریت کی بنیادیں رکھی جا ئیں گی ، اس وقت بہت سی آوازیں اس بیمانہ نظام کے خلاف صف آرا ہو چکی ہیں۔ ان سب میں متاثر کن، توانا اور باجرات آواز تحریکِ منہاج القرآن کے چیرمین علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ہے۔کیا پاکستان کے عوام ان کی اس آواز پرلبیک کہہ کر تبدیلی کے عمل کو ممکن بنا سکیں گئے یا وہی فرسودہ اور پرانا نظام عوام کا مقدر بنا رہیگا ، کیا کسی علاقے کا چوہدری عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتا رہے گا یا عوام خود اپنی قسمت کے مالک ہوں گئے ، اس بات کا فیصلہ ہو جانا انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان پر ایک مخصو ص استحصالی ٹولے نے حکومت کرنی ہے یا عوام کا بھی اس میں کوئی حصہ ہو گا ، یہی وہ اہم سوال ہے جس پر آنے والے دنوں میں ملکی سیاست کی بنیادیں رکھنی ہوں گی کیونکہ موجودہ جمہوری نظام انتہائی فرسودہ اور کرپٹ ہو چکا ہے لہذا اس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔