ایک باپ بیٹا ٹرین میں سفر کر رہے تھے اُس کے بیٹے کی عمر کوئی لگ بھگ 24 سال ہوگی اُس کے والد نے اپنے بیٹے کے اصرار پر کھڑکی والی سیٹ طلب کی اور وہ لڑکا کھڑکی کی طرف بیٹھ گیا جب ٹرین چل پڑ ی تو اُسے بہت عجیب لگا کی ٹرین آگے آگے بھاگ رہی ہے اور لوگ پیچھے کی طرف جا رہے ہیں وہ اس منظر سے بہت محظوظ ہوااور اپنا سر کھڑکی سے باہر نکال لیا اور سب نظارے دیکھنے لگا وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد زور سے چلاتا اور اپنے والد کو آواز دیتا کہ بابا دیکھو ہم آگے کی طرف جا رہے ہیں اور سارے درخت پیچھے رہ گئے ہیں اُس کا والد مسکرا دیتا وہ پھر تھوڑی دیر بعد چلاتا کہ بابا دیکھو ہم آگے جارہے ہیں اور سارے پہاڑ پیچھے کی طرف جا رہے ہیں اُس کا والد پھر مسکرا دیتا۔
ٹرین میں اُس کے ساتھ جو لوگ سوار تھے وہ حیرت سے یہ سب دیکھتے اور ناگواری کا اظہار کرتے ایک صاحب نے کہا کہ آپ ٹرین سے اترتے ہی اپنے بیٹے کو سیدھے ہسپتال لیکر جانا اُس لڑکے کے والد نے ہلکی سی مسکراہٹ اپنے چہرے پر بکھیر کر کہا کہ میں اِس کو ہسپتال سے ہی لیکر آرہا ہوں آنکھوں کے آپریشن کے بعد کیونکہ یہ پیدائشی نابینا تھا۔
ہم لوگوں کی یہ عادت اب پختہ ہو چکی ہے کہ ہم نہ کسی معاملے کو جانتے ہیں اور نہ اُس کی تحقیق کرتے ہیں بس فوراً اپنی طرف سے دوسرے کے بارے میں اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنا فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں جیسا کہ ہماری حکومت آئے روز اعلان کرتی ہے کہ جو فیصلہ کیا جائے گا عوام کی رائے کا احترام رکھ کر کیا جائے گا مگر ہوتا اس کے برعکس ہی ہے اور تمام فیصلہ اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے ہیں اور عوام کی رائے کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے پٹرول کے نر خ میں تبدیلی کرنی ہوں گیس کے نرخ بجلی کے نرخ میں تبدیلی کرنی ہو تو جب حکومت چاہتی ہے۔
تبدیلی کر دیتی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بھی فیصلے کیئے جائے عوامی مفاد کو مدنظر رکھ کر کئے جائے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ میرا ذاتی مشاہدے کے مطابق میں نے تو آج تک دیکھا ہی نہیں کہ کوئی بھی فیصلہ عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہوں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن میںمہینوں سے نہیں سالوں سے تمام چیزوں کے نرخ بالکل نہیں بڑھتے ہر چیز کا ایک چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے مگر دل چسپ ترین بات یہ کہ ہمارے یہاں تمام ادارے موجود ہیں لیکن عملاً کام صفر کہنے کو یہ جمہوریت کہلاتی ہے جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کو جو کچھ بھی کیا جائے اُس ملک کی عوام کو اعتماد میں لیکر کیا جائے اور تمام پالیسی ساز ادارے جو بھی پالیسی بنائے اُس میں سب سے پہلے وہاں کی عوام کی مزاج سوچ اور حالات کو مدنظر رکھ کر بنائے جائے لیکن میری ذاتی رائے میں تو یہ جمہوریت نہیں سول ڈکٹیٹر شپ ہی کہلاتی ہے۔
جہاں عوام کی کوئی شنوائی نہیں آئے روز نت نئے فیصلے کئے جاتے ہیں اور ہر طرح سے صرف انپے آپ کو محفوظ بنانے اور لمبے عرصے حکومت قائم کرنے کیلئے نئے نئے حربے اور مواقع تلاش کیئے جاتے ہیں اور ہر ماہ کوئی نئی ترمیم پیش کردی جاتی ہے خدا وہ وقت پتہ نہیں کب لائے گا کہ جب کوئی ترمیمی بل یہ آرڈیننس عوام کے حقوق قائم کرنے کیلئے پیش کیا جائے گا؟جس کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی لیکن پھر بھی پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ طاقت کے محور جو ادارے ہیں وہ اپنی بقا ء کی جنگ میں اسقدر مصروف ہیں کہ اُن کا باقی طرف دھیان ہی نہیں جاتا ایک عرصہ سے یہی جنگ جاری ہیں اور اس آپس کی جنگ میں عوام کا پرسان حال ہی نہیں رہا کوئی خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی عروج پر ہے آئے روز کوئی نہ کوئی شدید نوعیت کا واقعہ ہوجاتا ہے لیکن ابھی تک کوئی عملی اقدام نظر نہیں آرہا اور پورے ملک بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے بلوچستان الگ سلگ رہا ہے۔
کراچی میں 7 سے 8 افراد کی ٹارگٹ کلنگ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے اس کے علاوہ لوٹ مار چوری ڈکیٹیاں قتل و اغوا برائے تاوان بھی کافی تعداد میں بڑھ چکے ہیں لیکن لگتا ایسے ہے جیسے حکومت نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا رہی ہے نیرو کا انجام یاد رکھو ورنہ کچھ بھینہیں بچے گا۔
اب سی این جی بحران کو اگر دیکھا جائے تو بظاہر یہ خود ساختہ پیدا کیا ہوا لگتا ہے تاکہ عوام اور
Supreme Court
میں کسی طرح تصادم کی راہ پیدا کی جائے وگرنہ سپریم کورٹ نے تو بڑے واضح انداز میں اوگرا کو ہدایت کی ہیں کے 20روپے والی گیس عوام 4کو گنا زیادہ قیمت میں کیوں مل رہی ہے اگر دیکھا جائے تو یہ مسلہ سنگین نوعیت اختیار کرچکا ہے۔
میری ذاتی رائے میں تو یہ مشرف دور کی سب سے بڑ ی اور انتہائی درجے کی غلطی تھی جو سی این جی کا قیام عمل میں لایا گیا کیونکہ گیس کے اتنے ذخائر بھی نہیں ہیں ہمارے پاس اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی 70 فیصد ٹرانسپورٹ سی این جی پر منتقل ہوچکی ہے لاکھوں لوگوں کا کاروبار اس سے وابستہ ہے اور سی این جی سٹیشن کے لائسنس دیتے وقت بھی قواعد کی دھجیاں بکھیری گئیں اور دھڑادھڑ لائسنس جاری کئے گئے اب اس قدر تعداد میں اس کام کو پھیلا کر اچانک اور فوری طور پر بند کرنا اُس غلطی سے بھی سنگین غلطی ہوگی جو کہ مشرف دور میں سی این جی اور اوگرہ کو قیام میں لا کر کی گئی تھیں اب اوگرہ کو چاہیے کہ جلد سے جلد سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس معاملے کو احسن طریقے سے نمٹا لے جو کہ لگتا ہے کہ حکومت اس معاملے کو جنوری کے اختتام تک گھسیٹنا چاہتی ہے تاکہ جس مقصد کیلئے اس معاملے کو طول دیا جا رہا ہے وہ مقاصد حاصل کرلیئے جائے۔
خیر جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو کس سے شکایت کی جائے اور کس سے بہتری کی امید رکھے جائے اگر پنجاب حکومت کی بات کی جائے تو ادھر بھی یہی ہی حالات ہیں اور سب بات وفاق پر ڈال کر اپنا دامن بچا لیا جاتا ہے اور پھر وفاق کے تعاون سے 5 سال حکومت کے مزے بھی لوٹ لئے اگر کچھ حد تک مان بھی لیا جائے کہ زیادہ ذمہ داری وفاق پر آتی ہے تو کیا پنجاب کے جو ہسپتال ہیں صوبائی ریونیو کے محکمے ہیں ٹی ایم اے اور پولیس سمیت دیگر ادارے کیا یہ پنجاب کے زیر اثر نہیں آتے گویہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کے تمام صوبوں کے وزراء اعلی میں سب سے متحرک پنجاب کے وزیراعلی میاں شہباز شریف ہیں جو سرکاری ملازمین کو معطل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن جو لوگ معطل ہوتے ہیں وہ کچھ عرصے بعد پھر بحال ہوجاتے ہیں گڈ گورنس کا زور شور سے اعلان کیا جاتا ہے لیکن ایک ہسپتال میں ایک شیر خوار کو چوہے بھنبوڑ کے رکھ دیتے ہیں۔
ہسپتالوں میں جائوں تو کوئی پرسان حال نہیں انتہائی بدتمیزی سے مریضوں سے پیش آیا جاتا ہے لاہور ہی کے قریبی علاقے شاہدرہ میں ایک سیرپ پینے سے بے انتہا ہلاکتیں ہوئی لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی گئیں اور محکمہ پولیس کی حالت تو انتہائی ہی خراب ہے کہنے کو ماڈل پولیس سٹیشن قائم کردئیے گئے ہیں اور خوش اخلاق عملہ تعینات کردیا گیا ہے مگر سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے وہ ہی طوفان بدتمیزی سائلان سے رکھا جا رہا ہے بغیر پیسے کے کوئی کام نہیں کیا جا تا میری خادم اعلیٰ سے گزارش ہے کہ اپنے مشیران کے مشورے سے ہٹ کر بذات خود اور اپنے ذاتی ذرائع سے بھی ان تمام اداروں پر نظر رکھے اور اس کیلئے ان ہی جیسے لوگوں سے معلومات اکٹھی کی جائے نا کہ مرسڈیز اور لینڈ کروز والے مشیران سے۔ عوام کی سوچ جاننے کیلئے عوامی سطح پر ہی آکر سوچا جائے توہی مسائل حل ہو پائے گے مکمل نہ صحیح لیکن کچھ حد تک تو بہتری کے آثار نظر آئیں گے۔
وفاق کی حکومت تو خیر اب اتنی ڈھیٹ ہوچکی ہے کہ اُسے تو آپ کچھ بھی کہتے جائے وہ سب کچھ ٹھیک کا ہی راگ الاپے جائے گی۔ڈالرکی قیمت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ایک اندازے کے مطابق ایک روپیہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے 60 ارب تک قرضوں کی مد میں بڑھ جاتا ہے اور ڈالر چار سال پہلے 62 روپے سے بڑھ کر 99 تک پہنچ چکا ہے اور شنید ہے کہ 103 تک جائے گا لیکن حکومت نے ابھی تک ڈالر کی قدر میں روپے کے اضافے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا ۔اور ہمیشہ کی طرح بیان بازی جاری ہے کہ ڈالر کو 100 کا ہندسہ عبور نہیں کرنے دیا جائے گا یہ بیان 62 روپے کا ڈالر تھا جب سے ایسے ہی بیان جاری کیئے جا رہے ہیں لیکن پاکستانی روپے کی بے قدری زور شور سے جاری ہے اور ہم لوگ روز بہ روز قرضے میں جکڑتے جارہے ہیں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کا ہر شہری 37ہزار کا مقروض بن چکا ہے لیکن حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں انہیں پتہ ہے انہوں نے یہ سب بوجھ عوام پر ڈال کر اسی عوام سے نچوڑ لینا ہے اور اپنی کمیشن جاری رہے گی سو عوام مرے یہ جس حال میں رہے اُس سے نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ویسے بھی انتخابات قریب ہیں عوام کو چاہیے کہ وہ بہت عرصے سے بہت کچھ دیکھ رہے ہیں اس بار خدارا ہوش کے ناخن لے لو اور ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر یں ذات برادری تعلق سے ہٹ کر ووٹ صرف اُن لوگوں کو ڈالیں یہ اُن پارٹیوں کو جو حقیقت میں آپ کے ووٹ کی پاسداری کرتے ہوئے صرف عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے ورنہ پھر تیار ہو جائے اپنے خون پسینے کی کمائی کو سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں نچوڑرنے کو ویسے بھی اُس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتی جو خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہتی ہو تو اس دفعہ جو فیصلہ کریں سوچ سمجھ کر کریں شاید یہ آخری موقع ہی ہوں۔