کوئٹہ میں گورنر راج ، اِنسانی خون اور پانی برابر

Quetta tragedy

Quetta tragedy

گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہزارہ کمیونٹی سمیت سیکڑوں نہتے اِنسانوں کی شہادت اور اِن کاخون پانی کی طرح بہہ جانے کے بعد بالآخر آج کوئٹہ میں گورنرراج نافذکر دیا گیا ہے اِس پر میرا خیال یہ ہے کہ اِس حکومتی اقدام کی اصل وجہ ہزارہ کمیونٹی کی پانچ دن تک اپنے86 پیاروںکی لاشوں کے ساتھ علمدرار روڈکوئٹہ میں سخت سرد ی اور بارش میں دیاجانے والاوہ دھرناہے جس نے حکومت کو بلوچستان کے حالات پر سوچنے اور سنجیدگی سے کوئی قدم اُٹھانے پر مجبورکیا اور یوں بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ ممکن ہوایہ اِن کی اِس جدوجہد اور محنت کا ہی ثمر ہے جس کے نتیجے میں اِنہیں اپنے مقصدمیں کامیابی حاصل ہوئی اور اِسی کے ساتھ ہی یہاں میں یہ بھی کہناچاہوں گاکہ اگر حکومت کی جانب سے یہ اقدام بہت پہلے کر لیاجاتا تو ممکن ہے کہ بلوچستان کے حالات اِس نہج پر کبھی نہ پہنچتے جہاں ابھی پہنچ چکے ہیں۔

مگر میں پھر بھی یہ کہوں گاکہ دیرآئے درست آئے اِس حکومتی اقدام سے قبل سانحہ کوئٹہ کے خلاف بلوچستان میں شٹرڈاؤن ہوا ،کوئٹہ میں 86 لاشوں کے ساتھ دھرنا پانچویں روز میں داخل ہوا اور مجلس وحدت مسلمین ، شیعہ علماء کونسل و دیگر تنظیموں کی جانب سے کراچی ، حیدرآباد سمیت پشاور، فیصل آباد، سکھر ، بدین سمیت ملک میں بھی احتجاج و ہڑتال اور سوگ، مظاہرے اور دھرنے کا سلسلہ جاری رہا جس سے ملک کا نظام دھرم بھرم ہو کر رہ گیا تھا بالآخر اتنے دن گزر جانے کے بعد ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں رینگ گئی اور حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور دھرنیوں کے مطالبات کو مان لیا گیا۔

Raja Pervez Ashraf

Raja Pervez Ashraf

اگرچہ اپنے کچھ اتحادیوں کی شدید مخالفت کے بعد ہمارے منفرد المقام وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے علمدار روڈ پر 86 لاشوں سمیت13 جنوری کو چار دنوں سے دھرنادینے والے ارکان سے ملاقات کی اور اِس دوران اُنہوں نے دھرنیوں کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے کوئٹہ کے حالات سے پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے دن بھر اجلاسوں اور مشاورت کے بعد اپنے کلیجے پر چھری چلا دی ہے اوربلوچستان حکومت کو برطرف کر دیا ہے اور اعلان کیا کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان بھر میں آرٹیکل 234کے تحت دوماہ کے لئے کوئٹہ میں گورنر راج نافذ کر دیا ہے اِس موقع پر وزیر اعظم نے کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا سے اظہار تعزیت اور ہزارہ برادری کے خلاف مقدمات بھی واپس لینے کا اعلان بھی کیا یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم کے اِس حکم کے تحت کور کمانڈر ایف سی کی کارروائیوں کی براہ راسست نگرانی کریں گے ، آئندہ صوبے کے حالات کے پیش نظر انتظامیہ فی الفور فوج طلب کر سکے گی اِسی طرح اپنے اِس اقدام کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

جبکہ اِس موقع پر ہزارہ کمیونٹی کے دھرنیوں کا مطالبہ تھا کہ اَب ہم میں اپنے پیاروں کی لا شیں اٹھانے کی ہمت نہیں ہے اِن کا کہنا تھا کہ کم ازکم جس قدر جلد ممکن ہو سکے ہماری جان اور مال کی حفاظت کے لئے فوج تعینات کی جائے جس پر ہمارے وزیر اعظم نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں دھرنیوں کو سمجھاتے ہوئے کہاکہ ہمارے اِس اقدام کے تحت آئین کے مطابق انتظامیہ جب چاہئے گی اپنی مدد کے لئے فوج کو طلب کرسکے کی جس پر دھرنیوں نے وزیراعظم کو بھی اِس بات کا یقین دلایا کہ جیسے ہی ہم آپ کا جاری کردہ نوٹیفیکشن دیکھ لیںگے تو ترنت دھرناختم کردیں گے اور پھر ایساہی ہوا جیسا دونوں جانب سے وعدہ کیا گیا تھا۔

Maulana Fazlur Rehman

Maulana Fazlur Rehman

اُدھر دوسری جانب حکومت کے اِس اقدام پر حکومتی اتحادی میں شامل ایک مذہبی جماعت جمیعت علمائے اسلام(ف) اور اِس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو بسا اوقات اپنی ضرورت سے زیادہ دانش سے آگے نکل کر سوچنے اور بہت کچھ کرنے کے عادی ہیں اُنہوں نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ اور فوج بلانے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنا یہ موقف اختیار کیا کہ ہم کسی بھی صورت میں بلوچستان میں فوج بلانے ، ایمرجنسی لگانے اور گورنر راج لگانے کے حق میں قطعاََ نہیں ہیں اِن کے نزدیک کوئٹہ میں انسانی خون کو پانی کی طرح بہائے جانے والے واقعات سے کہیں زیادہ مقدم جمہوریت اور جمہوری روایات کی پاسداری ہے جس کی وجہ سے اُنہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لائی جانے والی کسی غیر آئینی اور غیرقانونی تبدیلی کی ہم حمایت نہیں کریں گے اِن کہناتھا کہ اگر بلوچستان میں تبدیلی لانی ہے تواِن ہاؤس تبدیلی لائی جائے تو اِس پر غور ضرور کیا جا سکتاہے ۔میرے نزدیک اگر حکومت اِن کی اِس رائے پر عمل کرتی تو اِس کے لئے کئی دن لگ سکتے تھے اور جب تک حالات اور بگڑنے کے اندیشہ قائم رہتامگر وہ تو اچھا ہوا کہ اِن کی نہیں چلی۔

مگر یہاں یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ ایک جمہوری حکومت کا بھرپور فائدہ ا ُٹھاتے اور اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے صدر آصف علی زرادی اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے بعد بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا جو فیصلہ کیا ہے بلوچستان کے اِن حالات میں اِن کے اِس اقدام کی ہر محب وطن پاکستانی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور جس کے لئے ساری پاکستانی قوم متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد الطاف حُسین اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر سینیٹر چوہدری شجاعت حُسین کی ضرور مشکور ہے کہ اِنہوں نے کوئٹہ کے موجودہ حالات پر صدر اور وزیر اعظم کو اپنی تجاویز دیں کہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ کریں اور وزیر اعلی اسلم رئیسانی فوراََ ملک واپس آئیں اور مستعفی ہو جائیں کیوں کہ بلوچستان کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے فوج ناگزیر ہو چکی ہے جس پر صدر اور وزیر اعظم نے لبیک کہا اور بلوچستان میں فی الفور گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔

Long March

Long March

اَب اِس سارے حالات اور اِس منظر اور پس منظر کے حوالے سے میں اپنے دل کی ایک بات کہتا چلوں کہ اکثر مجھے اپنے ملک کے حاکموں کی نااہلی کی بنا پر عوامی مسائل اور اِن کے بروقت حل کے معاملے میں حکمرانوں کی روا رکھی جانے والی بے حسی اور اِسی بے حسی اور لاپرواہی کی وجہ سے ملک کے طول و ارض میں پھیلی ہوئی اِن کی بدانتظامی اور پھر اِسی بدنظمی کی بنیاد پر ہونے والے عوامی احتجاجوں ، دھرنوں اور لانگ مارچ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال اور اِس کے بعد پھر حکمرانوں اور اداروں کی جانب سے کئے جانے والے جزوقتی اقدامات اور انتظامات پر خلیل جبران کا یہ قول یاد آجاتا ہے ”قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سواکبھی سُنائی نہ دے، جو اپنے کھنڈروں پر فخرکرتی ہو اور صرف اُس وقت سنبھلنے اور اُبھرنے کی کوشش کر ے جب اس کا سرتن سے جداکرنے کے لئے تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہو۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com