سب سے پہلے تو میں اپنے پڑھنے والوں کا بے حد شکر گذار ہوں کہ میری غیر موجودگی کو انہوں نے محسوس کیا اور ای میل کر کے میری خیریت دریافت کی اور میں مصروفیت کی بدولت کسی کو بھی جواب نہیں دے سکا جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ کی طبیعت جنوری کے پہلے ہفتہ میں اچانک بگڑ گئی اور ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال میں داخل کرلیا جس کے بعد کچھ عرصہ سے پھر دنیاوی کاموں سے رابطہ کٹ گیا۔
اب اللہ پاک نے انہیں صحت جیسی دولت سے دوبارہ مالا مال کرنا شروع کردیا ہے تو میں پھر اپنے لکھنے لکھانے والے سلسلہ کی طرف دوبارہ لوٹ آیا ہوں اور میں ایک بار پھر اپنے ان چاہنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری غیر حاضری کو محسوس کیا اور میری خیریت دریافت کی۔
کچھ دنوں سے سرکاری ہسپتالوں میں عوام کی حالت زار دیکھ کر کئی بار رونا آیا کہ جہاں پر غریب مریض کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ اس ملک کو لوٹنے والوںپر ہر طرح کی نوازشیں کی جارہی ہیں انکے لیے وی آئی پیز کمرے بھی بنا رکھے ہیں انہیں تمام ادویات بھی بازار سے خرید کر دی جا رہی ہیں اور تو اور سروسز ہسپتال لاہور کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے اپنے لیے بھی ایک وی آئی پی کمرہ رکھا ہوا ہے۔
ہسپتال کی وارڈوں کے اندر کیڑے اور کاکروچوں کی بھر مار ہے جو اکثر مریضوں کے بیڈ پر بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں عوام کے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت میں سے دیا گیا ٹیکس اور پھر اس میں سے کروڑوں کے فنڈز جو حکومت ہسپتالوں کو دیتی ہیں کرپشن کی نظر ہورہے ہیں ہر طرف کمیشن مافیا بیٹھا ہوا ہے اور اندرونی کرپشن کو بیرونی صفائی سے چھپا رکھا ہے۔
یہی حال پورے ملک کا بنا ہوا ہے پاکستان جوایک زرعی ملک ہے آج مزدور طبقہ فاقوں پر مجبور ہے نااہل لیڈروں کی وجہ سے عوام کمپسرسی کا شکار ہیں اورحکمران اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے سب ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔
حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی حالت اب قابل رحم بھی نہیں رہی پانچ سال گذرنے والے ہو گئے حکومت نے بجلی و پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور ان اہم عوامی مسائل پر چشم پوشی اختیار کی گئی بجلی و پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ اور ظالمانہ لوڈشیڈنگ نے ایک طرف کاروبار زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور انہی مسائل کی چکی میں پستے پستے عوام اب تنگ آ کر ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پر باہر نکلے ہیں اور جا کر اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔
Tahir ul Qadri
انہیں اس بات سے کوئی سرکار نہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا کیا ہے یا اسکے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں مگر حالات کی ماری ہوئی اور حکومتوں کی ڈسی ہوئی قوم کو ناامیدی میں بھی اب امید کی ایک کرن نظر آنا شروع ہوئی تو وہ باہر نکل آئی اور ایسے لگتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیش کردہ تمام مطالبات پاکستان کے عوام کی آواز ہیں، لہذا ان مطالبات کو فی الفورتسلیم کیا جائے اور حکومت نے سانحہ کوئٹہ سے پیداہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے جس طرح تاخیرکی اس طرح ڈاکٹر طاہر القادری کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے میں تاخیری حربے استعمال نہ کئے جائیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے جائز مطالبات ماننے میں تاخیر کرکے فضا مزید خراب نہ کی جائے۔
اگر تاخیری حربے استعمال کئے گئے اور لانگ مارچ کی راہ میں رکاوٹ کیلئے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کئے گئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لانگ مارچ کوئٹہ کی طرح ملک گیر احتجاج کی شکل اختیار کرلے اور پھر حکمرانوں کو بھاگنے کا موقعہ بھی نہ مل سکے۔
موجودہ انتخابی نظام کے تحت کوئی غریب کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا ایسے نظام کو بدلنا ہو گا نظام نہ بدلا تو جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے اور لٹیرے اسمبلیوں میں پہنچتے رہیں گے پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہ امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ غریب بچے ننگے پائوں پھرتے ہیں لیکن حکام کئی ایکڑ پر مشتمل بڑے سرکاری گھروں میں شہنشاہوں کی طرح رہتے ہیں حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ڈرون حملے پاکستان کا مقدر بن چکے ہیں جمہوریت کے نام پر قوم کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی فرعون غریبوں کا خون چوس رہے ہیں اور پاکستان دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔
لیڈر صرف پیسے بنانے کے لیے سیاست کرتے ہیں اور سیاسی گند اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کے لیے ایک بڑے سیاسی اپریشن کی ضرورت ہے اور غریب انسان کو اس کا حق اسکی دہلیز پر پہنچنا چاہیے نہ کہ ایک بار پھر عوام کو وعدوں کی سیاست پر ٹرخا دیا جائے۔