دھرنا ! بنام ہزارہ قبیلہ

Quetta Blasts

Quetta Blasts

کڑاکے کی سردی اور خون کو منجمد کر دینے والی سرد راتیں اور ساتھ میں بارش! بارش بھی ایسی کہ کبھی آسمان سے رواں تو کبھی آنکھوں سے رواں، آنکھوں سے بارش کا رواں ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے اپنے کفن پہن کر ان سے کبھی نہ ملنے کے لئے ابدی نیند سو گئے ، وہ تمام افراد جو اس دھرنے میں شریک ہیں انہوں نے اُن لاشوں کو لیکر دھرنا دے رکھا ہے، کیونکہ انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں نہ جانے کب کوئی اور سانحہ ان پر ٹوٹ پڑے۔

ظاہر ہے کہ ان کا یہ خدشہ درست ہے کیونکہ ایک ہی دن میں سو سے زائد افراد کا اس دارِ فانی سے رخصت ہو جانا لمحہ فکریہ ہے۔ اور یہ سلسلہ تو پچھلے پانچ سال سے جاری ہے۔ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اس لئے ان لوگوں نے نہ سردی کی پرواہ کی اور نہ بارش کی ،نہ میتوں کی تدفین کی.

بس اپنے مقصد میں ڈٹے رہے۔اُن سب لوگوں نے اس طرزِ حکمرانی کے خلاف دھرنا جاری رکھا ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بھر میں ان کے حق میں اس قسم کا دھرنا جاری ہے۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہونگے اس وقت تک ان کے مطالبات منظور ہو چکے ہونگے کیونکہ پچھلی رات کو وزیراعظم صاحب نے آئین کی دفعہ 234کا نفاذ کر دیا ہے۔ اور صوبائی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

دیر آئے درست آئے کہ مصداق راقم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت کی آنکھوں میں بندھی سیاست کی سیاہ پٹی تو اُتری، انہوں نے بھی عوام کی داد رسی کی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس داد رسی کا اطلاق فوری ہو جاتا بہرحال جس درد و کرب سے ہزارہ کمیونٹی گزر رہی ہے ان کا درد حکمرانوں کے سمجھ میں بھی آ گیا۔

آج امید ہے کہ میتوں کی تدفین بھی عمل میں لائی جائے گی۔ دنیا بھر میں لگ بھگ ہزارہ کمیونٹی کی آبادی ستر لاکھ ہے۔ اور دس لاکھ کے قریب ہزارہ افراد پاکستان میں رہائش رکھتے ہیں۔ بقول ہزار کمیونٹی کے پچھلے ایک سال میں ان کے سولہ سو افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ویسے تو ملک بھر میں دہشت گردی بامِ عروج پر ہی ہے اور نہ جانے کتنے ہی افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ کتنے ہی کنبے لاوارث ہو چکے ہیں جن کی داد رسی کرنے والا کوئی بھی نہیں، ان کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑے ہیں، کیونکہ ان کا کمانے والا ہی دارِ فانی سے رخصت ہوکر ابدی نیند سو چکے ہیں۔

ہر لمحہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنے ملک کے باسیوں کو امن و امان نہیں دے سکے۔ ابھی کل ہی ایک مولانا صاحب جو بلوچستان کابینہ کے رکن تھے ، میڈیا پر فرما رہے تھے کہ گورنر راج کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ جمہوریت بڑی مشکل سے آئی ہے اور ہم جمہوریت کا سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ رکھو بھائی مگر ساتھ ہی ساتھ عوام کو امن و امان، سکون، روزگار، تعلیم، اور دوسری سہولیات بھی تو فراہم کرو تب ہی تو جمہوریت کامیاب ہوگی وگرنہ کیوں جمہوریت کی رٹ لگاتے ہو۔ گو کہ ان کی بات حکومت نے رَد کر دی اور صوبہ بلوچستان میں گورنر راج لگا دیا ہے جو کہ ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی ڈیمانڈ تھی۔ فوج کی ڈیمانڈ بھی ان کی ہے مگر اب دیکھئے کہ گورنر بلوچستان صاحب کب اسٹیپ اٹھاتے ہیں۔ آج سے جنابِ گورنر صاحب کا امتحان شروع ہونے جا رہا ہے۔

Pakistan

Pakistan

ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلام کے نام پر وجود میں آیا جس کا اولین مقصد یہ ہے کہ ملک بھر میں ہر مذہب و مسلک کے ماننے والوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہوگی، مگر اب ایسا نظر نہیں آتا کہ ہر مذہب و فرقہ کے لوگوں کو آزادی میسر ہے کیونکہ قتل و غارت گری نے ان کے اعتماد کو متززل کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے میتوں کی تدفین ہونے کے بجائے انہیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج پر مجبور ہیں لوگ۔ ہزارہ کمیونٹی کے لوگ اپنی نسل کشی پر بہت برہم اور گریا کناہ ہیں اور یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ آخر ہماری نسل کشی کب تھمے کی۔ حقیقت میں پاکستان کی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلی بار رونما ہوا ہے کہ زندہ لوگوں کے ساتھ ساتھ مردوں نے بھی صدائے احتجاج بلند کیا ہے۔

کوئٹہ کے ہزارہ کمیونٹی میں بے یقینی کا دکھ ستا رہا ہے جبھی وہ لوگ گورنر راج لگنے کے بعد بھی اس بات پر قائم ہیں کہ جب تک وہ گورنر راج لگانے کا آرڈر نہیں دیکھ لیتے احتجاج کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے۔ اس اتحاد سے یہ عندیہ ضرور ملتا ہے کہ عوامی اتحاد ہر بڑے سے بڑا کام با آسانی کرا سکتا ہے۔ہزارہ برادری کے لوگ تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے کیونکہ حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور ان کے مطالبات مان لیئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قادری صاحب اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، گو کہ وزیرِ داخلہ نے بہت بڑی بڑی باتیں کر ڈالیں ہیں، اور قادری صاحب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور آج کسی وقت وہ اپنے لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے والے ہیں۔

کراچی، حیدر آباد، ملتان، لاہور، اسلام آباد اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں سے ہمدردی کے لئے لوگ سڑکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، ان سب کا یہی کہنا تھا کہ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ، کل بندرگاہی شہر کراچی ان سے اظہارِ یکجہتی کے سلسلے میں مکمل طور پر بند رہا، مجلس وحدت المسلمین نے کئی شہروں میں ریلیاں بھی نکالیں، کوئٹہ میں بھی ایک جماعت کی طرف سے کل ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس کی وجہ سے کوئٹہ بھی کل مفلوج تھا۔ اور جب بھی اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو وزیرِ داخلہ صاحب فوری طور پر موبائل سروس کی لوڈ شیڈنگ کرنے میں چُوکتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے باسی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پتھروں کے زمانے میں چلے گئے ہیں جہاں کسی کا کسی سے کوئی رابطہ ہی ممکن نہیں ہو سکتا۔ اپنے دوستوں اور کاروباری فون تو کُجا اپنے پیاروں کی خیر خیریت بھی معلوم نہیں کر سکتے۔

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے اور اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کہ امن و امان ملک بھر میں بحال ہو جائے۔ ٹھیک ہے کہ انہیں ان کاموں میں کچھ دشواریاں ضرور ہونگی مگر میرے بھائی یہ عوام تو مسلسل پونے پانچ سالوں سے یہی سُن رہی ہے کہ امن و امان بہتر بنایا جائے گا، آخر کب؟ اب تو آپ کی حکومت کا وقت بھی پورا ہونے کو ہے اور کیئر ٹیکر حکومت آنے والی ہے ، ظاہر ہے کہ وہ تو ٹھیک کریں گے نہیں کیونکہ یہ ذمہ داری تو آپ لوگوں کی بنتی ہے اور الیکشن جیت کر بھی آپ ہی لوگوں نے آنے کا کہہ رکھا ہے تو میرے دوست! کچھ ایسا کیجئے کہ آپ کے دوبارہ آنے کیلئے دروازے کھل سکیں۔

Raja Pervez Ashraf

Raja Pervez Ashraf

وزیراعظم صاحب نے ہر ہلاک ہونے والے کے لواحقین کے لئے دس لاکھ اور ہر زخمی ہونے والے کے لئے ایک لاکھ روپے کی امدادی رقم کا اعلان تو کر دیا ہے مگر کیا ان روپوں سے کسی کا اُجڑا ہوا گھر دوبارہ بس سکتا ہے، کیا وہ لوگ جو اس دنیا سے جا چکے ہیں وہ واپس آ سکتے ہیں۔اپنے بچوں پر دستِ شفقت رکھنے والا ہاتھ کبھی واپس آ سکتا ہے، کسی کا شوہر جو ہلاک ہو چکا ہے وہ داد رسی کر سکتا ہے ، بالکل نہیں۔ اس لئے رقم دینا الگ بات ہے اور امن و امان فراہم کرنا الگ بات تاکہ آئندہ کوئی واقعہ رونما نہ ہو اور ملک بھر کے شہری بشمول ہزارہ کمیونٹی کے سکون اور امن و امان کے دامن میں رہ سکیں۔