جرمنی(بیورو چیف) برلن بیورو اور مرکزی آفس برلن MCB یورپ کے مطابق تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے میڈیا کوآرڈینیٹر برائے یورپ،سرپرست MCB یورپ اور چیف کوآرڈینیٹر پاکستان عوامی تحریک یورپ ، نامورو ممتاز صحافی و شاعر محمد شکیل چغتائی کا تازہ کالم نیوز ایجنسی اپنا انٹرنیشنل کی وساطت سے ذرائع ابلاغ کو جاری کیا جا رہا ہے: واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین کو صدیاں گزر چکی ہیں۔ اب نہ کوئی یزید جنم لے گا اور نہ کوئی ماں حسین جیسا لعل پیدا کرے گی۔ مگر ان دونوں کے قول،فعل اور کردار سے جس فلسفہ نے جنم لیا وہ تا قیامت جاری رہے گا۔ حق و باطل، اخلاص و ریاکاری، دیانت و بے ایمانی ، صداقت و فریب کی یہ جنگ کبھی بند نہیں ہو گی۔ جہاں جہاں طاغوت ، ظلم ، جبر، دولت،طاقت اور استحصال کی حکمرانی ہو گی، وہاں مقہور ، مظلوم ، مجبور ، غریب ،کمزور ، نادار اور استحصال شدہ لوگ ایک نہ ایک دن اسکے خلاف آواز ضرور بلند کریں گے۔
مسلمانوں نے سانحہ ء کربلاکے بعد جبر ، طاغوت اور استحصال کی طاقتوں یا نظام کویزیدیت اور اس نظام یا اسکی علم بردار طاقتوں کے خلاف آواز اٹھانے والے مظلوموں ، مجبوروں اور استحصال شدہ لوگوں کے عمل کوحسینیت یا امام حسین کی سنت قرار دیا۔ لہٰذا ڈاکٹر طاہر القادری کے اعلان کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے امام عالی مقام سے کوئی موازنہ نہیں کیا ، بلکہ وہ خود کو دوسرے جانثاران اہل بیت کی طرح امام حسین کا غلام کہتے ہیں۔ اس لئے انکے اس قافلہء انقلاب کے دوران ان کی ہر تقریر ،ہر خطاب اور ہر بیان کو مندرجہ بلا وضاحت کی روشنی میں دیکھنا اور پرکھنا چاہئے۔ اس کے علاوہ انکے خطابات کے من پسند معنی نکالنا ، یا انکے مونہہ میں اپنی مرضی کے الفاظ ڈالنا صریحاً بددیانتی ، دروغ گوئی اور بے شرمی ہے۔
پاکستان کے لوگوں، خصوصاً اقتدار پر قابض قوتوں نے پاکستان میں انقلاب اور وہ بھی عوامی انقلاب کا صرف نام ہی سنا ہے۔وہ ایران، مصر،عراق، الجیریا اور افغانستان جیسے مسلم ممالک میں آنے والے انقلابات کے حوالے سے انقلاب کا مطلب صرف خونی انقلاب ہی نکالتے ہیں،لہذا انہیں ڈاکٹر طاہر القادری کے پر امن انقلاب کی سمجھ نہیں آرہی۔ کیونکہ انکے بقول بغیر خون بہے انقلاب آہی نہیں سکتا۔ حیرت تو ان لوگوں پر ہے،جو پرویز مشرف کی جوتیوں یا بوٹس کے صدقہ پریس کی شتر بے مہار آزادی حاصل کرکے اینکر،دانشور اور تجزیہ نگار بن بیٹھے ہیں۔ ان ساون کے اندھوں کو سب ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔ اس لئے وہ قادری صاحب کی ہر بات کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ عوام قادری صاحب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جائیں ، ان کا ساتھ چھوڑ دیں یا کم ازکم انکی بات پر دھیان نہ دیں۔
Tahir Ul Qadri
ان تمام بہتان تراشیوں ، جھوٹے سچے قصوں اور انکی ذات پر رکیک حملوں کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ عوام قادری صاحب کے ایجنڈے کی سچائی پر کہیں ایمان نہ لے آئیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے ، قلمکار ، کالم نگار اور ٹی وی شوز کے میزبان ڈاکٹر صاحب کے ایجنڈے کو تعصب کی عینک لگائے بغیر پر کھتے اور ٹی وی شوز میں صرف اصل ایجنڈے پر بات کرتے۔ مگر ہویہ رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ایجنڈے پر بات نہیں ہوتی انکی ذات کو تحتہ مشق بنایا جاتا ہے اور کاروان انقلاب کے اسلام آباد پہنچنے اور تین دن سے جاری رہنے کے باوجود ابھی تک لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ”ڈاکٹر صاحب کا ایجنڈا سمجھ نہیں آرہا۔”ان سب کو ڈاکٹر صاحب کی بات کبھی سمجھ نہیں آئے گی،کیونکہ یہ پرمٹوں، پلاٹوں،لفافوں اوردیگر مراعات کے عادی لوگ اس فرسودہ نظام سے کمبل کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔یہ نہ کوئی تبدیلی چاہتے ہیں،نہ ہی آئین کی تمام شقوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ ان سبکو صرف اپنے فائدے کی شقیں پسند ہیں۔ یہ غصہ سے پاگل ہو گئے ہیںکہ اب عوام کو بھی پتہ چل گیا کہ آئین پر چلا جائے تو عام آدمی بھی منتخب ہو سکتا ہے،جو یہ نہیں چاہتے۔
مجھے حیرت صرف تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ پر ہے جو اس ایجنڈے پر آمنا وصدقنا کہنے کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کے شانہ بشانہ نہ چل سکیں ، نہ ہی اسلام کی دعویدار بلکہ ٹھیکیدار جماعتوں کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ عملی طور پر نہ سہی اخلاقی طور پر ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دیتے۔ MQM توغالباًگورنر کی تبدیلی اور بلدیاتی نظام پرحکومت سندھ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی، مگر عمران خان کی مجبوری سمجھ نہیں آتی تھی۔غالباًً انہیں یہ رنج تھا کہ پکی پکائی ہانڈی پر ڈھکن ڈاکٹر صاحب نے رکھ دیا۔ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ کاروان ان کے پروگرام میں شامل ہی نہیں تھا۔ آج بھی انہوں نے پریس کانفرنس میں سات نکاتی ایجنڈا اپنے مطالبات کی شکل میں پیش کیا ہے۔ مگر جلوس نکالنے ،دھرنا دینے یا قادری صاحب کے دھرنے میں شامل ہونے کی بات نہیں کی۔ان دونوں جماعتوں کو اس سیاسی غلطی اور اس سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ آگے چل کر ہو گا۔خاص طور پرMQM کو،جو اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کی تقریبا ًتمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اسکی مخالفت پر کمر بستہ ہیں اور یہ اس کے لئے قومی سطح پر مقبول ہونے کا سب سے بہترین موقعہ تھا،جو اس نے ضائع کردیا اور اسلام آباد کے عظیم پلیٹ فارم کو چھوڑ کر کراچی اور حیدرآباد کی محدود فضا میں لوٹ گئی۔
بہر حال اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ باقی رہے ہمارے پیشہ ورصحافی،اچانک بن جانے والے مرد و خاتون اینکر ، نام نہاد سیاسی ورکر اور سول و فوجی ریٹائرڈ تجزیہ نگار ، تو وہ ہمیشہ کی طرح اپنا حق نمک ادا کر رہے ہیں۔ کبھی ڈاکٹر صاحب کوغیر ملکی ،کینیڈین،ایک شخص کہہ کر مخاطب کرتے ہیں،کبھی انکے لئے شعبدہ باز،چابی والا بابا اور دوسرے تہذیب سے گرے الفاظ استعمال کرتے ہیں ، کبھی انکی گرفتاری کا مشورہ دیتے ہیں اور کبھی عوام کو ان پر حملے کے لئے اکساتے ہیں۔ مگر جھوٹ اور باطل کے اس نقار خانے میں سچ اور حق کہنے والے بھی موجود ہیں ، جو اپنے ٹی وی شوز کے ذریعہ عوام کو حقیقت حال سے آگاہ رکھتے ہیں۔ورنہ تو جھوٹے پروپیگنڈے کے اس سمندر میںبڑے نامور اینکر بھی بہے جا رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب ازراہ اخلاق سبھی کے مشکور نظر آتے ہیں۔آج ہی ایک اینکر فرمارہے تھے کہ” پاکستان کے 65سالوں میں پینتیس سال ڈکٹیٹرشپ رہی ، جمہوریت کوبہت کم موقعہ ملا۔”جبکہ میری ناقص رائے میں”قائد اعظم کی ناگہانی وفات کے بعد پینتیس سال فوجی ڈکٹرشپ رہی اور باقی عرصے سول ڈکٹیر شپ۔
Qadri Long March
ملک عزیز نے آج تک عوامی جمہوریت کا مزہ چکھا ہی نہیں اور اس حقیقی جمہوریت کا قیام ہی قائد انقلاب شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا اصل نعرہ ہے۔ لیکن اگر میں”سیاست نہیں ریاست بچاؤ” کے بجائے ڈاکٹر صاحب کو”عوامی جمہوریت لائوملک بچاؤ” کی شکل میں ایک آسان نعرہ دیتا ، تو بھی یار لوگ اس میں کیڑے نکالنے سے باز نہیں آتے۔کیونکہ یہ تنقید کرتے ہوئے نعوذ باللہ اللہ میاں کو بھی نہیں بخشتے۔” تاہم ایک بات طے ہے کہ یہ تمام حربے، جو آج بھی جاری ہیں ، ڈاکٹر صاحب کو ان کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔ نہ ہی ان کے پرستاروں، تحریکی کارکنوں اور غریب عوام کوان کا ساتھ دینے سے منع کر سکے۔ لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس کا گواہ ہے۔ بلکہ میرے خیال میں اس میں اللہ کی کچھ بہتری ہی ہوگی کہ ڈاکٹر طاہر القادری تن تنہا اس انقلاب کی قیادت کر رہے ہیں ، جو پاکستان کا مقدر ہو چکا ہے۔ اب بھی وقت ہے۔ راہ حسین پر چلنے والایہ قافلہ اب بھی حر کے پیروکاروں کو گلے لگانے کے لئے تیار ہے۔ انکی خدمت میں دو شعر حاضر ہیں۔ رہے جو بیٹھے تو جان لو تم ، کبھی نہ منزل کو پا سکو گے ، یہ حشر برپا نہ ہو گا تم سے ، نہ تم انقلاب اسکو گے