میاں میر (لاہور) میں تعینات رجمنٹ کو مئی میں غیرمسلح کر دیا گیا تھا اس کے باوجود انہوں نے 30 جولائی کو بغاوت کردی اور اپنے کمانڈنگ آفیسر میجر اسپنسر کو قتل کرکے فرار ہوگئے۔ مشرق میں دہلی کی طرف بڑھنے کی بجائے انہوں نے مخالف سمت اختیار کی۔ وہ اجنالہ کے تحصیلدار کے ساتھ لڑائی میں مصروف اور 31جولائی تک دریا کے کنارے پر محصور تھے کہ امرتسر کا ڈپٹی کمشنر فریڈرک کوپر ایک چھوٹی فوج کے ساتھ منظر پر نمودار ہوا۔ انقلابی ایک ایسے جزیرے پر جہاں سے بھاگنے یا دفاع کیلئے کوئی سا مان موجود نہ تھا انتہائی افسوسناک حالت میں طویل پیدل مسافت کے باعث تھکن سے چور اور بھوک سے مررہیتھے۔ ان میں سے کچھ نے گرفتاری دے دی اور کچھ کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران محاصرہ کرنے والے گاں والوں نے پکڑ کر فوج کے حوالے کردیا۔ مجموعی طور پر کوپر500 باغی سپاہیوں کو رسیوں سے جکڑ کر اجنالہ لیگیا
انقلابیوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے ایک خشک کنواں ڈھونڈ لیا گیا۔ یکم اگست کو عیدالاضحی کے دن مسلم گھڑ سواروں کو امرتسر آکر تہوار منانے کی اجازت دے دی گئی جبکہ واحد عیسائی اور وفا دار سکھوں کو مختلف نوعیت کی قتل و غارت گری کیلئے روک لیا گیا۔ انقلابیوں نے اپنی طرف سے اپنے اقدا مات کے ذریعے یہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ ایک مقصد کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار و باخبر تھے۔ جب ان میں سے 237 کو قتل کردیا گیا تو قلعے کے برج کے دروازے کھول دیے گئے تاکہ قیدی باہر آسکیں۔ کوپر اپنی سرگزشت ان الفاظ کے ساتھ جاری رکھتا ہے دیکھ لو وہ تمام تقریبا مرگئے تھے انجانے میں کا سانحہ پھر سے دہرایا جاچکا تھا۔