اگر ہم تاریخ کے اوراق کا بنظرِ عمیق مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ ہر انقلاب کی زندگی بڑی ہی محدود اور مختصر ہوا کرتی ہے لیکن اس کے اثرات بڑے دور رس اور اس کا پیغام بڑا آفاقی ہوتا ہے۔ ہوتا یہ کہ کسی بھی معاشرے میں جب ظلم و ستم اور جبرو ناانصافی اپنی انتہائوں کو چھونے لگتی ہے تو انسانیت کے درد سے لبریز کسی خاص جماعت یا افراد کا کوئی ایک گروہ ایک مخصوص سوچ کے سا تھ معاشرے کے اندر بدلائو اور تبدیلی کے عمل کے آغاز کا اعلان کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس گروہ کو بے پناہ صعوبتوں اور مشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لیکن اس گروہ کا عزمِ مصمم اتنا قوی اور یقین اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہدف کو حاصل کئے بغیر دم نہیں لیتا۔
اس طرح کے سر فروش اور سر پھرے انسان آپ کو ہر معاشرے ، ہر سوسائٹی اور ہر ملک میں ملیں گئے۔ تاریخ دراصل انہی انسانوں کی جدو جہد ، جرآتوں اور قربانیاں کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ تاریخِ انسانی میں اگر یہ سر پھرے لوگ اپنی سر فروشی کا مظاہرہ نہ کرتے تو انسانیت آج بھی پابہ زنجیر ہوتی اور غلامی کا طوق اپنے گلے میں سجائے بیٹھی ہوتی۔ یہ سر پھرے افراد تاریخِ انسانی میں ایسے نقوشِ پا چھوڑ جاتے ہیں جنھیں مٹانا اور نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ امر بڑا باعثِ دلچسپی ہے کہ ان کی جدو جہد کا تعلق کسی خاص مذہب ، عبادات اور رسومات سے نہیں ہو تا بلکہ یہ جدو جہد مکمل طور پر انسانیت کی سر بلندی، اس کی تکریم اس کی آزادی ، اس کی حریت اور اس کے تقدس کی خاطر ہو تی ہے اور خوشبو کی طرح پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
Tyrannical
اس راہ پر چلنے والے افراد سے چاہے وہ کسی بھی ملک کے باسی ہوں ،کرہِ ارض کا ہر انسان محبت کرتا ہے کیونکہ ان کی جدوجہد ذاتی تشہیر ، اقتدار اور مفادات کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ اس کا واحد مقصد انسانیت کو جبر و استبداد کی زنجیروں سے رہائی دلانا اور عدل و انصاف کو یقینی بنانا مقصود ہوتا ہے۔ وہ جس ناممکن کا م کو سر انجام دینے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں اسے پایہِ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے ہیں کیونکہ ان کے اندر تبدیلی کا جذبہ اور شعلہ اتنا توانا اور قوی ہوتا ہے کہ اسے بجھانا اور مٹانا کسی بھی قوت کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ انسانیت کا المیہ یہ ہے کہ حر یتِ فکر کا علم بلند کرنے والے ان افراد کی رحلت و رخصتی کے بعد ان کی پیش کردہ سوچ پر ضعف اور اضملال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ان کی انقلاب آفریں سوچ کی روح کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو اس انقلاب کو برپا کرنی والی ہستیوں کے ساتھی، دوست، رفیق ،ہمدرد اور دست و بازو ہوتے ہیں آہستہ آہستہ اس دھرتی سے رختِ سفر باندھ کر دوسرے جہاں کی جانب کوچ کر جاتے ہیں۔ ان کی رحلت سے انقلا ب کی گونج ، شور ، ٹنٹنا اور اثر پذیری مدھم ہو جاتی ہے۔
انقلاب سے ان کی کمٹمنٹ جس درجے اور معیار پر ہوتی ہے اسے بعد میں آنے والے انسانوں میں تلاش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انھوں نے انقلاب کی شمعیں جس طرح اپنے لہو سے روش کی ہو تی ہیں اور اس کے لئے جس طرح کڑے امتحانوں سے گزرتے ہیں بعد میں آنے والے اس سے محروم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی خا طر ان کی اٹھائی گئی صعوبتوں ،مشکلات اور تکالیف کا تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ اس فکر پر ہر صورت پہرہ دیں اور اسے پروان چڑھائیں جس کی خاطر انھوں نے ناقابلِ برداشت جبر کو سہا ہوتا ہے۔ انقلاب جسے انھوں نے اپنے خونِ جگر سے برپا کیا ہوتا ہے ، ہر نقشِ کہن کو مٹایا ہوتا ہے اور ہر شہ کو الٹ دیا ہوتا ہے ان کے لئے زندگی کی سب سے عزیز ترین شہ ہوتی ہے اور اس کی حفاظت اور بقا کے لئے وہ اپنی قیمتی ترین متاع کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ان کا برپا کیا ہوا انقلاب ہی ان کی زندگی ہوتا ہے لہذا اس سے رو گردانی ان کی موت ہوتی ہے اور وہ روگردانی اور تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے اپنی پیش کردہ فکر اور مقصد کی خاطر مر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہی جذبہ انقلاب کو زندہ رکھنے میں ممدو معاون ہوتا ہے۔
مقصد سے سرِ مو انحراف نہ کرنا اور انقلاب کے علم کو کسی بھی حالت میں سر نگوں نہ ہونے دینا ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہو تی ہے اور اس پر وہ کسی بھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتے۔ انقلاب سے ان کی کھلی کمٹمنٹ انقلاب کو زندہ بھی رکھتی ہے اور اسے آنے والی نسلوں کے حوا لے بھی کرتی ہے۔ یہ الگ بات کے آنے والی نسلیں ان کے پیش کردہ انقلاب کی روح کو استحسان کی نظر سے تو ضرور دیکھتی ہے لیکن اس پر اس طرح عمل پیرا نہیں ہوتی جس طرح انقلاب کا ہر اول ہوا کرتا ہے۔ اگر ہم اسلام کے برپا کردہ انقلاب کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ حقیقت بالکل بے نقاب نظر آتی ہے کہ ایک خاص مدت گزر جانے کے بعد اسلام کے اس پیغام کو جو مجبور و مہقور اور محروم و محکوم طبقوں کے لئے حیاتِ نو کا پیغام لایا تھا اسی کے نام پرملوکیت کا تخت سجا لیا گیا۔ کیا اسلامی انقلاب کا مقصد ملوکیت اور شہنشائیت کو تحفظ دینا تھا یا اس کا مقصد انسانیت کو ہر قسم کے جبر سے محفوظ رکھنا تھا۔
Old Makkah
سچ تو یہ ہے کہ یہ اسلام کے پیغام کی آفاقیت ہی تھی جس نے آقا و غلام کے فرق کو مٹا کر بلالِ حبشی کو موذنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعزاز سے نوازا تھا۔ مساوتِ محمدی کی روح نے عظمتِ انسانیت کیلئے مدارج کا ایک ایسا نیا تعین متعارف کروایا تھا جس میں معیارِ عزت و تکریم انسانی اوصاف کو بنایا گیا تھا اور جسے تقوی کا نام دیا گیا تھا۔ ایک ایسی راہ تھی جس پر خدا کے مقرر کردہ مستقل اقدار کے پیمانوں کو چراغِ راہ بنانے میں انسانیت کا شرف بھی تھا اور اس کا حسن بھی تھا۔ اس راہ میں عزت و وقار کے کیلئے محلات کی نہیں بلکہ عظمتِ کردار کی ضرورت تھی اور کردار کی اسی قوت نے پوری دنیا کو ان صحرا نشین بدووں کے سامنے سر نگوں کر دیا تھا۔ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے بعد مسجدِ نبوی کے اسی حجرے میں قیام پذیر رہے جو فتح مکہ سے قبل ان کے زیرِ استعمال تھا۔ فتح مکہ کی عظیم الشان کامیابی نے ان کی روزمرہ زندگی کے معمولات کو متاثر نہیں کیا تھا اور ان کے معیارِ زندگی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی۔
اسلام کا استغنائی رنگ ان کی شخصیت پر اسی طرح غا لب تھا جیسے فتح مکہ سے قبل تھا اور یہی حال ان کی تیار کردہ جماعت کے افراد کا تھا۔ تاریخ کے اوراق بہت سے سنہری واقعات سے بھرے پڑے ہیں لیکن میں صرف ایک واقعہ لکھنے پر اکتفا کروں گا۔ امیرا لمومنیں حضرت فاروقِ اعظم ا سلامی اندازِ حکمرانی کا جیتا جاگتا پیکر تھے جن کی تعریف و تخسین میں تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۔ ان کا قانون و انصا ف سے بھر پور دور تاریخِ عالم کا ایسا درخشاں باب ہے جس پر انسانیت بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ ایران کے صوبے اور تسترد کا گورنر ہرمزان قید کر کے مدینہ منورہ لایا گیا تواس نے پو چھا کہ شہنشاہ عمر کا محل کہاں ہے۔ اس سے کہا گیا کہ ہمارے ہاں امیرالمومنیں کا کوئی محل نہیں ہوتا وہ ہماری طرح کی زندگی گزارتا ہے۔ حضرت انس بن مالک اور حضرت احنف بن قیس اسے مسجدِ نبوی لے گئے۔ ہرمزان نے دیبا کی زرکاب پوشاک زیبِ تن کر رکھی تھی ، موتیوں اور جواہرات سے مرصع تاج سر پر رکھا ہوا تھا۔
خالص سونے کا عصائے شاہی جس میں موتی اور یاقوت جٹرے ہوئے تھے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا۔ اس کی نگاہیں مسجدِ نبوی میں شہنشاہ عمر کو تلاش کر رہی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ مسجد میں کچھ لوگ چپکے چپکے باتیں کر رہے ہیں اور ایک طرف ایک شخص چغہ سرہانے رکھے سو رہا ہے۔ ہر مزان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ شہنشاہِ وقت کہاں ہیں؟ انھوں نے اس سونے والے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شخص جو محوِ استراحت ہے وہی عمر ہیں تو ہرمزان کی حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ یہ باور کرنے کیلئے تیارہی نہیں تھا کہ عرب و عجم کا شہنشاہ یوں فرش پر محوِ استراحت ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے ایرانی شہنشاہ ہوں کے جس طرح کے عالی شان محلات اور ٹھاٹھ بھاٹھ دیکھے ہوئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی اس شہنشاہ میں نظر نہیں آرہا تھا۔
Hazrat Farooq e Azam
ہر مزان نے اس طرح کا روح پرور اور دلکش منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لہذا اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ کوئی شہنشاہ اس طرح کا بھی ہو سکتا ہے جو کھلی فضا میں ایک عام سے فرش پر بے خطر سو رہا ہو لیکن اس بات کا یقین دلانے کے بعد کہ وہی شہنشاہ عمر ہیں اس کی حالت غیر ہو گئی۔ ہر مزان پر امیر المومنیں حضرت فاروقِ اعظم کی شخصیت کی ایسی ہیبت طاری ہو جاتی ہے کہ خوف سے اس کی ٹانگیں کا نپنے لگتی ہیں۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ اس شخص کو پیغمبر ہونا چائیے اور اگر یہ پیغمبر نہیں ہے تو اس کا عمل ضرور پیغمبروں کا سا ہے۔ جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم۔۔دریا ؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان یہ راز کسی کو نہیں معلوم کے مومن۔۔۔۔قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن (ڈا کٹر علامہ محمد اقبال) ایک خا ص مدت کے بعد انسان سازی کا یہ آفاقی پیغام اپنی پٹری سے اتر گیا ۔ وہ کون سے عوامل تھے جھنوں نے خدا کے اس زندہ و پائیندہ پیغام کو پھر کبھی اس پٹری پر چڑھنے نہیں دیا تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ اہلِ علم حلقے اس سے بخونی آگاہ ہیں لہذ ا سے یہاں دھر انے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسا ہوا تھا او یہ ہمارے اموی اور عباسی حکمران تھے تھے جنھوں نے ایسا کیا تھا۔
ایسا کرنے کے پیچھے ذااتی مفادات کا حصول تھا اور انھیں مختلف قسم کے لبادے اوڑھا کر حا صل کیا گیا تھا۔ چودہ سو سالوں سے ہم سب نعرہ زنی کر تے جا رہے ہیں لیکن اس روح کو جو اسلام کے ابتدائی ایام میں اسلام کی قوت تھی ناپید ہو چکی ہے۔ ذاتی مفادات میں ٹکرائو اور باہمی محاصمت نے اسلام کے پیغام کو اتنا شدید نقصان پہنچایا ہے کہ ایک وقت میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت دوسروں کی محکوم و باجگزار بن کر رہ گئی ہے اور دنیا کے معاملات میں اسے کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی۔
اس کا سبب فقط یہی ہے کہ ہم نے خدا کی دکھائی گئی سیدھی اہ کی بجائے ذاتی مفادات کی راہ کو زیادہ عزیز اور من پسند بنا لیا ہے۔ انقلاب صرف نعروں کی حد تک با قی رہ گیا ہے ۔اس کی عملی تعبیر سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں ہے۔ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری آجکل ایک دفعہ پھر انقلاب کے نعرے بلند کر رکھے ہیں لیکن خالی نعروں سے تو انقلاب رونما نہیں ہوا کرتا اس کے لئے خونِ جگر دینا پڑتا ہے۔ کیا ہم واقعی اس انقلاب پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہیں یا محض دل لگی کے لئے یہ سب کچھ جاری و ساری ہے۔