بیوروکریسی

Bureaucracy

Bureaucracy

ایک مشہور کہانی ہے کہ ایک شخص بہت چالاک اور زیرک تھا اورہر طرح سے پیسے بنانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتا تھا کافی عرصہ سے وہ کچھ ایسے ہی طریقے ڈھونڈ رہا تھا لیکن بے سود مگر پھر اچانک اُسے ایک خیال آیا اور بازار کی طرف چل پڑا اُس کے راستے میں ایک دوکان آتی تھی وہ دوکاندار کے پاس گیا اور کہا بھائی آپ کے پاس اُلوّ ہے اگر ہے تو میں اچھے دام میں خرید لونگا اُس شخص کو پتہ تھا کہ یہ دوکاندار لالچ میں آجائے گا اُس نے دوکاندار سے کہا کہ تم ایک دو دن میں مجھے اُلوّ منگوا دومیں تم سے 500 میں خرید لونگا۔

یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا اور گھر جا کر اپنے بھائی جو اکثر و بیشتر بے کار ہی رہتا تھا اُسے سارا ماجرا سنایا اور کہا بازار سے اُلوّ 60،70 روپے میں مل جائے گا تم وہ اُلوّ اُس دوکاندار کے سامنے سے لیکر گزرنا اور 200 سے کم کا مت دینا سو اِس کے بھائی نے ایسا ہی کیا اور بازار سے اُلوّ لیکر چل پڑا اور جب اُسی دوکان کے سامنے سے گزرا تو زور سے آواز لگانے لگا کے اُلوّ لے لو اُلوّ دوکاندار کے ذہن میں فورا ًاُس شخص کا ذہن میں آیا اور اُسے روک کر فوراً پوچھا  کہ بھائی اُلوّ کتنے کا دو گے تو وہ بولا کہ 400 دوکاندار بولا بھائی 60 روپے کا بازار میں اُلو مل جاتا ہے تم کیوں اتنا مہنگا دے رہے ہو تو وہ بولا کہ میرا اُلوّ ہے اور بہت خاص ہے میں تو اتنے کا ہی دونگا آپ نے لینا ہے تو ٹھیک ورنہ آپ کی مرضی دوکاندار ویسے بھی لالچی تھا اور سوچا کہ دکان چھوڑ کر بازار میں گھومنا پھرے گا سو بیٹھے بٹھائے اُلوّ مل رہا ہے تو لے لیتا ہوں مجھے تو فائدہ ہی ہو رہا ہے۔

خیر اُن کیدرمیان کافی بحث و تکرار کے بعد سودا200 میں طے پا گیا اور دوکاندار نے وہ اُلوّ200 میں خرید لیااب وہ دوکاندار بہت خوش ہوا کہ کل اُس شخص کو 500 کا بیچ دونگا اور آرام سے اچھا خاصا منافع کما لونگا۔ اب وہ کل اُس شخص کا انتظارکرنے لگا جب وہ شخص اُدھر سے گزرا تو دوکاندار نے آواز لگائی بھائی آپ کا اُلوّآگیا ہے لے لو وہ شخص ایک دم انجان بن گیا کہ بھائی کون سا اُلوّ اور کیسا اُلوّ دوکاندار پریشان ہوکر بولا کہ بھائی آپ ہی نے تو مجھے کہا تھاکہ مجھے اُلوّ چاہیے اور میں تم سے 500 روپے میں خرید لونگا تو وہ شخص غصہ میں آگیا اور بولا تمہارا دماغ خراب ہے کہ مجھے اُلوّ کی کیا ضرورت اور میںکیوں لونگا مجھے اُلوّ کی کیا ضرورت میں تو کل اِدھرسے گزرا ہی نہیں اور نوبت ہاتھا پائی تک جاپہنچی اور کافی لوگ جمع ہو گئے جب لوگوں نے سارا ماجرا سُنا تو مجمع نے بھی اُس دوکاندار کو بُرا بھلا کہا کہ تم پاگل ہوگئے ہو وہ سوٹ بوٹ والا مہذب آدمی اور ایک اُلوّ کیونکر خریدے گا سو تم ایسی حرکتیں کرنی ہیں تو اپنی دوکان اس محلے سے ختم کرواور اپنا راستہ لواور یوں سارا نقصان اُس دوکاندار کو ہی ہوا اور اُلٹا لوگوں سے بے عزتی بھی ہوئی اور شرمندگی بھی اُٹھانا پڑی۔

Pakistani Politicians

Pakistani Politicians

سو صاحبو ایسا ہی حال ہماری بیوروکریسی کا بھی ہے وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ہمارے سیاست دان لالچی ہوتے ہیں اور اُنہیں اپنے دام میں پھانسنا کوئی مشکل کام نہیں اور یوں سیاست دانوں کی لالچ اور حرص کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیورو کریسی اُنہیں آرام سے استعمال کرلیتی ہیں اور جب تمام مقاصد حاصل کرلیئے جاتے ہیں تو اُنہیں چلتا کردیا جاتا ہے اور اور بیوروکریسی وہی کی وہی موجود رہتی ہے اور سارا الزام سیاست دان کے حصہ میں آجاتا ہے۔ سو اِس دفعہ سیاست دان بھی کافی ہوشیار ہوچکے ہیں اور بار بار بیورو کریسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعد اُنہیں بھی کافی عقل آگئی ہے سو اس دفعہ بیورہ کریسی نے بہت سی چالیں چلی ہزارہا جتن کیئے لیکن اس دفعہ سیاست دان محتاط اور متحد رہے اور جمہوریت نے پانچ سال کسی نہ کسی طرح پورے کر ہی لئے۔

خیر بات بیوروکریسی کی ہو رہی تھی لیکن یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے اندر بھی لالچ حرص و طمع بدرجا اُتم پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ استعمال ہو جاتے ہیں اور ہوس زر اور ہوس اقتدار کے لالچ اور سنہرے خواب دیکھ کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔ سیاست دان اگر صحیح معنوں میں مخلص ہو جائے اور سیاست کو عبادت سمجھ کر عوام کی خدمت کے جذبے سے کام کریں تو اِس طرح اُن کا اپنا ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور کوئی بھی انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال نہیں کرسکے گا اب یہ سوچنا سیاست دانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے اندار ہوس زر اور ہوس اقتدار کی سوچ کو چھوڑ کر ملک وہ ملت کیلئے ایک ہوتے ہیں یا کہ نہیں ورنہ وہ اگلا شکار بننے کیلئے تیار رہیں۔

تحریر : امجد اشرف

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi