القاعدہ ، طالبان ، لشکر طیبہ و دیگر جو تنظیمیں امریکہ کے خلاف کے لفاظی طور پر صف آراء ہیں۔ ان تنظیموں سے وابستہ لوگ نا صرف امریکہ کے خفیہ نمائندے ہیں۔ بلکہ یہ سب اس کی خفیہ فوج ہے جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطرمذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے اپنے خفیہ نمائندوں کی اسلامی شکل و صورت بناؤ، پھر ان کے ذریعہ سے اسلام و مسلمانوں کو بدنام کرو۔ اس کی یہ ہی ایک کوشیش ہے۔ ان مذکورہ تنظیموں کی پوری شدت کے ساتھ ذرائع ابلاغ سے پبلیسٹی کی جاتی ہے۔ ان کے پیغامات اور بیانات کی تخلیقی کی نمائش کی جاتی ہے۔ ان کو ڈرون حملوں سے مارنے کا ایک نمائشی کھیل سامنے لایا جاتا ہے۔
اس کے ذریعہ یہ بات ثبت کرنے کی کوشیشی کی جاتی ہے۔ یہ ہی لوگ دھشت گرد ہیں۔ اور دھشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ اس جوازکو جگ ظاہر کرنے کیلئے ان کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ اور پھر ان کو تخلیقی طور پر قتل کرنے کیلئے ایک مہم جوئی کی جاتی ہے۔ اعلانیہ جاری ہوتا ہے کہ وہ ان پرڈرون حملے کر کے ان کو ہلاک کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف حملے جاری رکھے گا۔ لیکن ایسا سب کچھ حقیقت کے برعکس ہوتا ہے۔ آج پوری اسلامی دنیا کو یہ معلوم ہو گیا کہ امریکہ کے القاعدہ، طالبان ، لشکر طیبہ و دیگر جنگجوئوں کے خلاف حملے تخلیقی بناوٹ کا ہی ایک گمراہ کن حصہ ہوتا ہے۔ان مذکورہ تنظیموں کو ذرائع ابلاغ سے دی جانے والی شہرت سے اس کا راز کھلتا ہے۔
George Little
ابھی حال میں ایک اخباری خبر کے مطابق ۔” امریکی وزارت ِ دفاع نے طالبان کے تخلیقی کمانڈر ملا نذیر کے مارے جانے پر اس کو ایک اہم کامیاب قرار دیا۔ جس پر پنٹاگن کے ترجمان جارج لٹل نے کہا کہ اگر یہ خبر درست ہے۔ تو صرف امریکہ بلکہ ہے بلکہ پاکستان کیلئے بھی اہم ہے” ۔مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ان کی ہلاکت کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ مگر دوسری طرف کہا جاتا ہے۔” ڈرون حملوں میں ملا نذیر کی ہلاکت کے بوجود امریکی حکام کی طرف سے اب تک کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی”۔ گویا تصدیق بھی اور پھر تردید بھی۔
بہرحال امریکہ کا یہ طالبانی کھیل ہے جو صرف ان کی پبلیسٹی کیلئے ہوتا ہے۔ جو ان کے مفادکا ہی ایک حصہ ہوتا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ سے مسلسل ان دھشت گردانہ کاروائیوں کی تشہیر سے اب یہ واضع ہوتا جارہا ہے۔ اب مسلم دنیا کا خیال یقین میں بدلتا جارہا ہے کہ القاعدہ اور طالبان امریکہ کی ایک خفیہ فوج ہے۔ جن سے سیاسی ، سماجی اور مذہبی حریفوں کو کچلا جاتا ہے۔جو سیاسی قیادت ان کے خلاف سرگرم ہوتی ہے ان کو اقتدار سے بے دخل کر دیاجاتا ہے۔ جو سیاسی قیادت اپنے پڑوسیوں سے باہمی مفاہمت کی بات کرتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے۔ تو اس کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ امن کی بات دو پڑوسی باہم کریں۔یہ بڑے ممالک کے نزدیک ایک عظیم گناہ ہے۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کو سزادی جاتی ہے۔ایسے جرم کی سزا نواز شریف بھُگت چکے ہیں۔ اس قدم کو بڑے ممالک کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت و قیادت بھی اچھی نظر نہیں دیکھتی۔ چونکہ دنیا میں امن پھیلانے کیلئے رائے شماری ایک امریکی خنجر ہے۔ جس کو امن لانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس امریکی خنجر کا استعمال کرکے ملکوں کے حصوں کو توڑ کر وہاں نئے نئے ملکوں جنم دے کر اپنی مرضی کا امن لایا جاتا ہے۔ جس سے ملک کمزور ہو جائیں۔ رائے شمادی کا امریکی خنجر بڑا ہی خطرناک ہے۔ ملکوں کو توڑ کر ان کو کمزور کرنے کا یہ ایک خوبصورت طریقہ ہے دوسرے ان ممالک کے حکمرانوں کو بے دخل کرکے ایک انتشار کی کیفیت پید کی جاتی ہے جیسا کہ ماضی کی جمہوری طور پر منتخب پاکستان کی مضبوط قیادت میاں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا کر ایک سیاسی کھیل کھیلا گیا۔ اب ملک میں شام میں کرایہ کے پُرتشدد کی ایک جھڑی لگی ہوئی ہے عراق ، افغانستان ،لیبیا ئ۔ مصرو دیگر ممالک کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ جس کا مقصد وہاں کے حکمران کو اقتدار سے بے دخل کرکے وہاں بد امنی کو جاری رکھنا۔
Pakistani Rulers
عوام کو خیموں میں رکھنا امریکی حکمرانوں کو بہت پسند ہے۔ چونکہ جب کسی ملک کے حکمران کو اقتدار سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ تو خیموں میں بسائے گئے عوام ہی ان کی سیاست کا حصہ بنتے ہیں۔ان کو پناہ گزین عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ وہ اپنے مقصد کے تحت ان لوگوں کو استحصال کرتے ہیں۔بڑے ممالک کی ان سے مکارانہ انسانی ہمدردی یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کے پکے مکانات سے نیکال کر، ان کے ملک میں کرایہ کے پُرتشدد احتجاج چلوا کر، ان کو خیموں میں آباد کرنے کیلئے ایک بڑی خوبصورت مہم چلاتی ہے۔اس کرایہ کے پُر تشدد احتجاج میں دھشت گرد لوگ شریک ہو کر حکمرانوں کیلئے ایک پریشانی کھڑی کرتے ہیں۔ان مکارانہ انقلابی دھشت گردوں کی حمایت وہ بڑے ممالک کرتے ہیں جو انسانی ہمدری کا واویلہ مچا کر یو این او کے بینرپر امداد جمع کرتے ہیں اور پناہ گزین خمیوں میں بے سہارا بنا کر جمع لئے گئے لوگوں کو امداد کی بھیک دے کر ان پر احسان ِعظیم جتلاتے ہیں۔جیسے وہ ان بے سہارا لوگوں و انسانیت کے اصل ہمدرد ہیں۔حالانکہ یہ ایک فریب کا جال ہے۔جس میںانسانی ہمدری کا ایک مایاجال دنیا کو دیکھا کر انسانیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
فی الوقت القاعدہ و طالبان کے حوالہ سے عوام و مذہبی رہنمائوں کو کچلنے کی مہم پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے۔ یہ بڑے ممالک کی چھوٹے ملکوں میں ان کے ذریعہ بدامنی پھیلا کر ،پُر تشدد کرایہ کے مظاہرے کر کے، انقلاب کا بے ہودہ ڈھنڈورا پیٹ کراس کے ساتھ سیاسی لیڈروں کو بھی کچلنے کی ایک تحریک پر عمل پیرا ہیں۔ مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے القاعدہ و طالبانی حلیہ لوگوں کو پیدا کر کے ان کو اسلام و مسلمانوں کو بدنام کرنے کے مقصد سے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یہ لوگ بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ہی دھشت گردی و خون ریزی پھیلاتے ہیں۔ اس طرح ان کی ترقی و خوشحالی کی رفتار میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
ان تنظیموں کا سلام و مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ اسلام کی غدارہوتی ہیں اور ان کا صرف اسلامی شکل و صورت کا مکھوٹا بنایا گیا ہے۔ ان کی موجودگی کا ناٹک دیکھا کر ہی ڈروں حملوں کے جواز کو ہموار کیا جاتا ہے۔ دنیا میں جگہ جگہ ڈرون حملے ان کی موجوگی کو دیکھا کر ہی کئے جاتے ہیں۔ یہ ایک امریکہ کی مکارانہ مہم ہے۔ جس کو مسلم ممالک کو ہی اپنے طور پر اس ناپاک مہم کو بے نقاب کرنا چاہئے۔ جس طر ح پاکستان کے سوات علاقہ میں بیرونی مہاتمائوں کی طرف سے” کرایہ کی شریعت ” کو قائم کیا گیا تھا۔ جس کو قلم کاروں کی چلائی گئی مہم راہ نجات سے کچلا گیا۔جس سے امریکہ کی ”خفیہ فوج القاعدہ و طالبان” کے تمام منصوبوں کو ناکارہ بنایا گیا اور ان کے گلے میں نکیل ڈالی گئی۔ امریکہ کی یہ خفیہ فوج القاعدہ وطالبان۔ جس کو پوری دنیا میں مشہور بنانے کیلئے اس کی تشہیر مغربی میڈیا سے کی جاتی ہے۔ اس خفیہ فوج کے ذریعہ دنیا میں دھشت گردوں و دھشت گردی کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ان کے ذریعہ سے اصل سماجی ،سیاسی و مذہبی لیڈروں پر حملے کئے جاتے ہیں۔
Drone Attack
جب معتبر شخصیات اس خفیہ فوج کے ذریعہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ تو اس خفیہ فوج پر ڈروں حملوں کرنے کے جواز کو جائز قرار دیکر اپنی پیٹ کو تھپ تھپایا جاتا ہے۔دنیا میں سلسلہ وار مذہبی و سیاسی شخصیات کا قتل نہ صرف افسوس ناک ہے بلکہ شرم ناک ہے۔ دنیا میں دھشت گردانہ کاروائیاں قابل مذمت ہیں۔ یہاں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کہ ڈرون حملوں کی موجوگی کاعمل القاعدہ و طالبان کے دفاع کے طور پر ہے۔ ناکہ ان کو ہلاک کرنے کیلئے، امریکہ دھشت گردوں کا بہانہ بنا کر بے قصورں پر ڈرون حملے اور امریکہ کی خفیہ فوج القاعدہ و طالبان کی موجودگی اب کچھ اور ہی اشارے دے رہی ہے۔ کہ وہ کوئی بھی مہلک کاروائی انجام دے سکتی ہے۔ القاعدہ و طالبان ۔ڈرون جیسا ہتھیار ہے۔ اس کی زد میں جوبھی آتا ہے وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے۔
اس سے یہ واضع ہوتا ہے۔کہ اب چاہے جو ڈرون حملوں سے مارا جائے یا پھر القاعدہ و طالبان کے ذریعہ سے یہ ترقی پذیر ملکوں ، ان کے عوام و حکمرانوں کے خلاف ایک بین الاقوامی گھناؤنی سازش ہے۔ اس خطہ کے عوام کو اس سازش کو سمجھنا چاہئے۔ بین الاقومی سازش کاروں کو یہ اچھی طرح علم ہے اور ہمار ا یقین بھی مستحکم ہے کہ پاکستان میں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کو ہی تازہ انتخاب میں واضع اکثریت ملے گی نواز لیگ کو برسر اقتدار آنے سے روکنے کیلئے سازش کار طاقتیں اپنا ایک کھیل کھیل رہی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حالات میں انتشار پید ا کرنے کیلئے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ امریکہ کی خفیہ فوج القاعدہ وطالبان بھی نواز لیگ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے نواز شریف کو اپنا نشانہ بنا کر شہید کرسکتی ہے ، افسوس ، نواز لیگ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے سازش کاروں کی طرف سے مولانا طاہر قادری صاحب کا سیاسی استعمال کیا جارہاہے۔ ان کی طرف سے تازہ لونگ مارچ کے ذریعہ پاکستان کے نائب قائدآعظم میاں نواز شریف کو وزیر آعظم بننے سے اوران کی جماعت کو برسراقتدار آنے سے روکنے کی مہم کا ہی ایک حصہ لگ رہا ہے۔ افسوس صد افسوس۔۔ منہاج القرآن کی ایک مذہبی تحریک کو سیاسی پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آخر اس مذہبی تحریک کولونگ مارچ کی کیا ضرورت پڑ گئی۔
اس کیلئے مولانا طاہر قادری صاحب رضا مند کیوں ہوئے ۔منہاج القرآن کی تعلیم میں انہوں نے تفریق کیوں پیدا کی۔کیوں مذہبی تحریک کو سیاست زدہ کیا۔ لیکن انہوں نے بدعنوانی کے خلاف لونگ مارچ کرکے اور پھر بدعنوانی میں ملوث لوگوں سے سمجھوتہ کر کے لونگ مارچ کی حقیقت کوہی بے نقاب کردیا ہے۔کہ لونگ مارچ بیرونی طاقتوں یا ارباب اقتدار کا ہی ایک ہدایت کردہ منصوبہ تھا۔ جس کی تکمیل کی گئی۔ گویا عظمت ِقرآن کی عظمت کو سیاست زدہ کرکے آخرکس مقصد کو طلب و حاصل کیا گیا ، ہم بھی منہاج القرآن کی تحریک کے بڑے خیرخواہ تھے۔ مگر تازہ حوادث سے بڑی قلبی تکلیف پہنچی۔ اتنا بڑا لونگ مارچ۔ مذہب اسلام کے دفاع میں ہونا چاہئے تھا۔مذہب اسلام کو اسلامی شکل وصورت میں دھشت گرد مذہب تبدیل کرنے والی امریکہ کی خفیہ فوج القاعدہ ،طالبان، لشکر طبیہ کے خلاف ہوتا تو اسلام و مسلمانوں کو سر مذید سُرخ رو ہوتا۔
Tahir Ul Qadri
مگر افسوس نواز شریف کو پاکستان کا حکمران بننے سے روکنے، ان کی سیاسی قوت کو کمزور کرنے کا جو سیاسی کھیل اسلام آباد کی سڑکوں پر کھیلا گیا وہ بڑاہی حیرت انگیز تھا۔ جبکہ تحریک منہاج القرآن کے بانی مولانا ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے لونگ مارچ ان کے خلاف ہونا چاہئے تھا جو مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کو امریکہ کی خفیہ فوج القاعدہ و طالبا ن کے خلاف کھل کر سامنے آنا چاہے تھا۔ مگر افسوس ایسا نہیں کیا گیا کیوں ، فی الوقت ، نواز شریف و تمام انسانیت تحفظ و سلامتی کی مستحق ہے۔ مگر افسوس ہے کہ امریکہ کی خفیہ فوج القاعدہ و طالبان کے لوگ جو ہر صاحب ایمان کے خون کے پیاسے ہیں۔جو صرف امریکہ کے مشن کو پورا کرتے ہیں۔
ڈرون حملوں سے جن کا تحفظ کیا جاتا ہے۔امریکہ نے ان کے خلاف صف آراء ہوکر گمراہیت کی چاردتمام عالم پر ڈال رکھی ہے۔جو لوگ اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر خود کش وفدائین حملے کر کے بدامنی کا محور بنے ہوئے ہیں۔ جو اسلام ،مسلمانوں اور اسلام کی مذہبی تبلیغ کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔جن سے مذہبی تعلیم پر ضرب کاری ہو رہی ہے۔ ان کیلئے خالی میدان کیوں چھوڑ دیا گیا۔ لونگ مارچ اصل ان ہی کے خلاف ہونا چاہے تھا۔ مگر افسوس صد افسوس ہم کدھر جارہے ہیں۔ اور ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن تنظیم کی تعلیم کیایہ ہے۔سرحدوں پر لوگوں گردنوں کو کاٹ کران کے جسم سے الگ کرکے سروں کو چھپا دیا جائے۔ ان کے لواحقین کو جسم کا باقی حصہ دیا جائے۔لونگ مارچ تو انسانیت کے دفاع ہی میں ہونا چاہئے تھا۔جس سے مہناج القرآن کی تعلیم کرنے والوں کی شان میں پوری دنیا میں قصیدے پڑھے جاتے۔
Long March
اس لونگ مارچ کا ہم ابھی تک صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں اور یہ ہی عوام الناس کا درد ہے۔ دنیا میں اب امن کی ضرورت ہے ۔ڈرون حملون اور امریکہ کی خفیہ فوج کی موجودگی کی اب کوئی ضرورت نہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک کے بانی مولانا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور ان کے اہل خانہ نے خفیہ فوج القاعدہ و طالبان سے ڈر کر اپنے وطن کو ترک وطن کر دیا۔ ان پر اللہ کا ڈرو خوف ہونے کے بجائے خفیہ فوج کا خوف غالب رہا۔ اپنے وطن کو خیرآباد کرنے والا شخص اب اتنا بڑا لونگ مارچ کس مقصد کے تحت کر رہا ہے۔ وطن کو ترک کر کے وطن کی فکر کے معنی سمجھ میں نہیں آتے۔ کہیں پاکستان کے حالات عرب ممالک جیسے بنانے کی سازش تو نہیں کی جارہی ہے۔