افلا تتفکرون (الانعام: 50) کیا تم غور و فکر نہیں کرتے……۔ البتہ لباس غیر شرعی نہیں ہونا چاہئے مثلا : 1 ۔ ستر (چھپانے کی جگہ) کو ڈھانپنے والا ہو جیسا کہ بخاری شریف (مکتبہ الشاملہ السعودیہ) کی حدیث : 5822 میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لباس سے منع فرمایا ہے جو ستر کو نہ ڈھانپتا ہو : (١) مرد کا ستر: ناف سے لے کر گھٹنوں سے نیچے تک ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کی سنن صغیر (مکتبہ الشاملہ السعودیہ) کی حدیث : 322میں ہے۔ (٢) عورت کا ستر: چہرے ، ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ سارا جسم ہے جیسا کہ فقہا نے مقرر کیا ہے۔ 2۔ ریشم کا کپڑا نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ بخاری شریف (مکتبہ الشاملہ السعودیہ) کی حدیث : 5828 میں اسکی ممانعت ہے۔ 3۔ تکبر کی وجہ سے عمدہ لباس نہیں پہننا چاہئے جیسا کہ بخاری شریف (مکتبہ الشاملہ السعودیہ) کی حدیث :5787 میں ہے۔ اب پاکستان اور مصری لباس کی بات کرتے ہیں : پاکستانی مردانہ (جنٹس) لباس : شلوار قمیص( پگڑی (عمامہ )، ٹوپی): یہ دیہات اور شہروں میں عام ہے، پینٹ شرٹ : دیہات کی نسبت شہروں میں اسکا زیادہ استعمال ہے، کرتا تہہ بند(دھوتی ، لنگی)،: یہ عام طور پر دیہاتی بزرگوں کا لباس ہے ۔
Lehnga
پاکستانی زنانہ (لیڈز) لباس : شلوار قمیص، دوپٹہ(اوڑھنی): ( اسکی کچھ اقسام جنکے نام تو میں مجھے نہیں آتے)،لہنگا وغیرہ، پینٹ شرٹ: انکا استعمال محتاج بیان نہیں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔ مصری مردانہ (جنٹس) لباس:عربی جبہ، پینٹ شرٹ: مصر میں بھی ان کے استعمال میں تقریبا وہی فرق ہے جو پاکستان میں شلوار قمیص اور پینٹ شرٹ کیاستعمال میں ہے۔
مصری زنانہ (لیڈز) لباس: عربی جبہ (جو پاکستانی خواتین کی قمیص جیسا ہی ہوتا ہے بس اسکے نچلے پلو آپس میںسلے ہوتے ہیںاور پاؤں تک لمبا ہوتا ہے) ،دوپٹہ(اوڑھنی) ،لہنگا (غرارہ، گھگرا)شرٹ،پینٹ شرٹ (برقع (نقاب)): دیہات میں پینٹ شرٹ کا استعمال شہر کی نسبت کم ہے اور عربی جبہ اور لہنگاشرٹ کا استعمال زیادہ، البتہ شہروں میں سب کا استعمال تقریبا ایک جتناہے، اور رہی سر ڈھانپنے (دوپٹہ، اوڑھنی) کی بات تو چونکہ یہاں پے عیسائی تقریبا15 سے 20فیصد ہیں اس لئے عام طور پر دوپٹہ لینا مسلمان اور نہ لینا عیسائی خواتین کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
Womens Abaya
دو چیزوں کے بارے میں میں نے اوپر کچھ نہیں لکھا جن میں سے ایک پگڑی (عمامہ)، ٹوپی،اور دوسری برقع (نقاب) ہے، کیونکہ انکا حکم ذرا ہٹ کے ہے کہ کیا یہ شرعی لباس (واجب ) میں شامل ہیں یا نہیں؟ تو پہلے پگڑی ،ٹوپی کو لیتے ہیں: پگڑی (عمامہ)، ٹوپی : اسکا تعلق شرعی لباس کے ساتھ نہیں کیونکہ مرد کا سر اسکی شرم گاہ (جسے چھپانا ضروری ہے، جو پہلی قسط میں بیان کر دی تھی) میں شمار نہیں ہوتا اور نہ ہی اسکا تعلق کسی گاؤں ، شہر یا کسی ملک کے ساتھ ہے بلکہ یہ ایک سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے لیکن مسلمانوں کی شومئی تقدیر(بد بختی) ملاحظہ ہو کہ کہیں تو اسکو مختلف جماعتوں کی علامت بنا دیا گیا تو کہیں اسے کسی رنگ اور ڈیزائیں کے ساتھ خاص کر دیا گیا۔
Prayer
تو کہیں امت مسلمہ میں تعصب کا سبب ، کہیں اسے نماز کے صحیح ہونے کیلئے لازم قرار دیا گیا تو کہیں ظالم لوگوں کی وحشیانہ اور سفاکانہ حرکتوں کیوجہ سے دنیا نے اسے (اور داڑھی کو بھی) دہشت گردی کی علامت بنا دیا، کاش کہ ہم اسے اپنے ذاتی مفادات سے ہٹ کر صرف سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر اپنانا شروع کر دیں ۔ آمین یا رب……۔(جاری ہے) میری اس کوشش کا مقصد آپکو غور و فکر کی دعوت دینا ہے تا کہ آپ لوگوں کی باتوں میں آ کر اسلام سے بیزار نہ ہوں بلکہ خود بھی کچھ سوچیں۔ یہ میرا خیال ہے اور آپکی آراء کا مجھے انتظار رہے گا۔