عجیب تیری سیاست، عجیب تیرا نظام حسین سے بھی مراسم، یزید کو بھی سلام پاکستانی عوام کا بھی کیا کہنا ۔ ویسے تو ہماری آبادی 18کروڑ سے زائد ہے مگر ہمارے سیاستدانوں نے ہمیں تقسیم کیا ہوا ہے ہر کوئی چار پانچ ملین کا حقدار بنا بیٹھا ہے۔ اب یہ تو مجھے بھی معلوم نہیں کہ میں کس کے حصے میں آتا ہوں۔ ہم لوگوں کی اہمیت ان سیاستدانوں کے سامنے صرف ون ڈش جتنی ہے۔ جوکچھ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس عوام کے ساتھ کیا وہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی سیاستدان ایسا کرتے رہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے افرادجو ہر بات سمجھ سکتے ہیں انہیں کیا ہو گیا تھا ، وہ کیسے ایک ایسے شخص سے تبدیلی کی امید لگا بیٹھے تھے جو خود اپنی جان کے ڈر سے غیر مسلم ملک میں جاکر بیٹھا ہی نہیں بلکہ ان سے شہریت بھی لے لی۔
معصوم ، نادان اور بے خبر لوگوں کے پانچ دن اور چار راتیں ایک بے مقصد دھرنے کی نظر کرکے مولانا ، علامہ ، ڈاکٹر ، یا پھر شیخ الاسلام اب کینیڈا لوٹنے کیلئے تیار ہیں۔ اگر یہ واپس نہ بھی جائیں تو کینڈین پولیس خود ان کو بلا لے گی کیونکہ اعلیٰ حضرت نے جس جھوٹ کے سہارے شہریت لے تھی اس کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ پاکستانی سمجھدار عوام اتنی جلدی قادری کے ڈرامے میں کیسے پھنس گئی ، پاکستانی ذی شعور اور غیور عوام یہ تو سوچ لیتی کہ جو شخص پاکستان کی شہریت کے بدلے دوسرے ملک کی شہریت لے رہا ہے وہ پاکستان کا کیسے خیر خواہ ہو سکتا ہے؟ ویسے تو یہ ماشاء اللہ بہت بڑے عالم ہیں مگر اتنا تو سب ضرور جانتے ہیں کہ اسلام میں جھوٹ بولنے والے کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
خود ساختہ شیخ الاسلام نے کینیڈا میں یہ کہہ کر شہریت لی ہے کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے اور آج اسی پاکستان میں بقول ان کے چار ملین لوگوں کے ساتھ مارچ کر رہے ہیں جبکہ میڈیا کے مطابق بیس تیس ہزار سے زائد عوام نہیں۔ پانچ دن تک سخت موسم میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے رہنے والے افراد جو تبدیلی کے منتظر تھے ان کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر انھیں شاید ابھی معلوم نہیں کہ تبدیلی ان سے دور چلی گئی ہے۔ ریاست کو ماں کا درجہ دلانے والوںنے اس ریاست کو طوائف بنایا ہوا ہے۔ جو صرف پیسوں کیلئے کسی سے بھی سودا کرنے سے گریز نہیں کرتی۔
Tahir Ul Qadri
جیسے آج ان لوگوں کو اندازہ نہیں کہ جس شخص کو یہ تبدیلی کی علامت سمجھ رہے ہیں وہ انھیں ” سیا ست نہیں ریاست بچاؤ” کا جھانسہ دے کر تبدیلی سے کتنا دور لے گیا ہے۔ خود کو شیخ الاسلام کہنے والے طاہر القادری نے اس صدر زرداری سے ریاست بچانے کا معاہدہ کر لیا ہے جو کہہ چکے ہیں کہ وعدے کوئی قرآن اور حدیث نہیں ہوا کرتے۔ حسینیت کی راہ دکھانے والے ، قران پر حلف لے کر لوگوں کو ڈٹے رہنے کی تلقین کرنے والے اور اسلام آباد کو کربلا سے تشبیہ دینے والے اور خود حسینیت اور حکومت کو یزیدیت سمجھنے والوں سے پوچھا جائے کہ کیاحضرت امام حسین نے یزیدوں سے کوئی معاہدہ کیا تھا ، کیا وہ بار بار ان یزیدوں کی منت کررہے تھے کہ مجھ سے آکر ملویا حضرت امام حسین اپنی جان پچانے کے لیے غاروں میں چھپے رہے اور ساتھیوں کو میدان میں چھوڑ دیا ، طاہر القادری خود تو بنکر میں چھپے رہے اور عوام کو سڑکوں پر ٹھنڈ اور بارش میں ذلیل کرادیا۔ جو لوگ لانگ مارچ میں گئے ان کے دوست ان کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ کونسا تیر مار کر واپس لوٹے ہو ، سوچنے والی بات یہ ہے کہ پوری قوم جن صدمات سے گزری ان مواقع پر ان کی حمیت اور غیرت کہاں سوئی رہی ، زلزلہ ، سیلاب، ڈرون حملے ، تازہ ترین انڈین جارحیت کے حوالے سے انہیں کبھی کوئی احساس نہیں ہوا۔
”بات سے بات ”میں اس سے پہلے بھی طاہر القادری کے بارے میں آرٹیکل”ریاست نہیں ایمان بچاؤ” کے عنوان سے چھپ چکا ہے ۔ جس میں ایک مولوی سے لیکر شیخ الاسلام بننے تک کا حالات کا تذکرہ کیا گیا تھا اور اس لانگ مارچ کے بعد طاہر القادری نے اس کالم کو سچا ثابت کردیا کہ ان کا کوئی ایمان نہیں۔ عوام کو کیا قصے کہانی سنا رہے تھے اور خود انہوں نے کیا کر دیا۔ اسی لانگ مارچ میں طاہر القادری نے کہا تھا کہ ”میں مذاکرات بند کمرے میں نہیں کروں گا بلکہ یہاں عوام کے سامنے فیصلے ہونگے ”مگر نا جانے وہ کونسا منتر تھا جو قادری کو بند کمرے میں لے گیا۔ اگر کوئی داڑھی والا جھوٹ بولے اور وہ جھوٹ پکڑا جائے تو اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ مولوی ہوکے جھوٹ بول رہا ہے یا داڑھی رکھ کر بھی جھوٹ بول رہے ہو مگر ادھر تو داڑھی والا مولوی جو پروفیسر ڈاکٹر اور شیخ السلام ہونے کا دعویدار بھی ہے ، حد سے زیادہ جھوٹ بول گیا۔ اب فیصلہ یہی عوام کرے کہ یہ مسلمان جائیں تو کدھر جائیں۔ اکثر محفلوں میں طاہر القادری کے لانگ مارچ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے دوستوں کی رائے یہی رہی کہ ہمیں شک ہے کہ یہ مولوی لوگوں کو اپنے مفاد میں استعمال کر کے خود کینیڈا بھاگ جائے اور تبدیلی کے نعرہ کو مذاق بنا جائے۔ بد قسمتی سے آج یہ خدشہ سچ ثابت ہو رہا ہے۔
Long March Meeting
حکومت نے جس طرح لانگ مارچ کو اتنا فری ہینڈ دیا اس کے پیچھے بھی ضرور کوئی چال تھی کیونکہ جو ٹرک لانگ مارچ کے لیے تیار کیا گیا وہ طاہر القادری اتنی جلدی اور آسانی سے تیار نہیں کرا سکتے تھے اس کے ساتھ ساتھ کبھی ایم کیو ایم اور کبھی شجاعت حسین طاہر القادری کی حمایت میں آواز بلند کر رہے تھے اور دوسری طرف خان صاحب بھی اس مارچ کی زینت بننے چلے تھے وہ تو بھلا ہو شاہ جی کا جس نے اختلاف کیا ور یوں خان صاحب اس گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم ہو گئے۔ یقیناً اس لانگ مارچ سے صرف حکومت کو ہی فائدہ پہنچا ہے ،حکومت کا معاہدہ ایک ایسے شخص کے ساتھ ہواہے جو صرف دوہری شہریت ہی نہیں بلکہ دوہری شخصیت بھی رکھتا ہے ، معاہدے کے مطابق وزیر اعظم کے لیے جودو نام حکومت دے گی اس کی مشاورت ایک دوہری شہریت کے حامل فرد سے ہوگی یعنی اب ہماری عوام کی تقدیر کا فیصلہ ایک این۔ آر۔او یافتہ صدر اور ایک نام نہاد شیخ الاسلام اور کینیڈین شہریت یافتہ کے ہاتھ میں ہے۔
اب تو ڈاکٹر طاہر القادری کی تو اتنی عزت مل چکی ہے میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک پریس کانفرنس میں رحمن ملک نے قادری کو پاپ یا پادری کہہ دیا جس پر آج عیسائیوں نے بھی احتجاج ریکارڈ کرا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پادری اور پاپ کی بے عزتی نہ کی جائے۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ غیر مسلموں کے دلوں میں اس شیخ الاسلام کی کتنی عزت ہے۔ محمد کی ہمیں حاصل غلامی ہمی ہیں سعدی و رومی و جامی شہید کربلا کے ماتمی ہیں یزید شہر کو دیں گے سلامی