اسلام آباد(جیودیسک) سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل کے قیدیوں کا معاملہ حل کرنے کے لیے حکومت کو کل تک کی مہلت دے دی۔ قیدیوں کو حراستی مراکز بھیجنے پر آئی ایس آئی سے وضاحت طلب کر لی گئی ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ غیرمعینہ مدت کے لیے کسی کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اڈیالہ جیل سے قیدیوں کے اغوا اور قتل سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ آئی ایس آئی کے وکیل راجہ ارشاد کا کہنا تھا کہ قیدی متعلقہ حکام کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیدیوں کے خلاف ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باعث کورٹ مارشل نہیں کیا گیا۔ ان کے خلاف قانونی نہیں مگر اخلاقی شواہد موجود تھے۔
قیدیوں کے خلاف نئے قانون کے تحت کارروائی کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ کل مجھے اور آپ کو بھی اخلاقی شواہد کی بنا پر جیل میں ڈال دیا جائے جب ان قیدیوں کے خلاف کچھ نہیں تو یہ جیل میں کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت کوئی اس کا جواب نہیں دے رہا۔ عدالت قیدیوں کو مارنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ان کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل قیدیوں کے کیس میں شخصی آزادی کا سوال ہے۔
دسمبر 2010 کو کہا گیا کہ ان قیدیوں کو فوج نے قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کرتیہوئے پکڑا ۔فوج نے ان قیدیوں کا ٹرائل بھی نہیں کیا۔ چار قیدی مر چکے اور چار بیمار ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ غیرمعینہ مدت کے لیے کسی کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اڈیالہ جیل کے قیدیوں کوغیرقانونی قید میں رکھنے والے افسرکا نام بتایا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قیدیوں سیمتعلق حکومت کل تک فیصلہ کرے ورنہ ہم کریں گے۔ صبح سب سے پہلے یہ معاملہ اٹھایا جائے گا اگر ان کی قید غیرقانونی ثابت ہوئی تو قانون حرکت میں آجائے گا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کسی کو ہوش نہیں اور نہ نیت ہے کہ دہشت گردوں کو سزا کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ سپریم کورٹ نے قیدیوں کو حراستی مراکز بھیجنے پر آئی ایس آئی سے وضاحت طلب کرلی ۔عدالت نے سیکریٹری فاٹا اور سیکریٹری خیبرپختونخوا کو بھی طلب کر لیا۔کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔