اسلام آباد دھرنے کے بعد سے کچھ لوگ قادری صاحب کو مستقل تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور کامیاب لانگ مارچ اور کامیاب دھرنے کو جس طرح ناکامی میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ باطل قوتیں قادری صاحب کے سیاست میں آنے پرخوش نہیں اور خاصی خوف زدہ ہیں۔
قادری صاحب کی عوامی مقبولیت انہیں کسی طور برداشت نہیں ہو پارہی یہی وجہ ہے کے اکثر لوگ ان کے خلاف غلط پروپگنیڈا کرتے نظر آرہے ہیں جیسا کہ قادری صاحب فلاح تاریخ کو ملک سے باہر جا رہے ہیں کینیڈی گورنمنٹ نے انھیں طلب کرلیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ 23 دسمبر سے سیاستدانوں کی نیندیں حرام کرنے والے انقلابیوں نے جس طرح جرات ،شجاعت کی لازوال مثال پیش کی۔
ہمارے سیاستدانوں کو اس طرح کی مثالیں کہاں ہضم ہوتی ہیں ہمارے سیاستدان سیاست اور ریاست میں عوام کا تو کردار ہی نہیں مانگتے اور جو ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے اسے جمہوریت بچائو کمیٹی سے اعلان ِ جنگ کرنا پڑتی ہے جس کی زندہ مثال آپ نے حال ہی میں دیکھی۔ہم جانتے ہیں کمزور معدے والوں کو ہماری یہ بات جلد ہضم نہیں ہوگی لیکن حق اور سچ کو دبایا جاسکتا ہے نہ چھپایا۔
تاریخ گواہ ہے مسلمانوں کو جب بھی شکست کا سامنا ہوا باطل کوحق پر برتری حاصل ہوئی میر جعفر میر صادق جیسے کردار ہی وجہ شکست بنے۔ اس ملک کی 18 کڑور عوام بخوبی جانتے ہے کہ لاہور سے چلنے ولا انقلابی قافلہ کامیاب تھا یا نہیں اور اسے کن لوگوں نے ناکام بنانے کی کوشش کی۔
موجودہ کرپٹ نظام کوبچانے کے لیے کن کن لوگوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔وہ کیا سمجھتے ہیں عوام یہ بات بھول جائیں گے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں نے کس طرح فرسودہ نظام کی حمایت کرکے اپنی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کی عوام کے جذبات کو اپنے ہی کارکنان کی خواہشات کو بالاتائق رکھ دیا گیا۔
Tahir ul Qadri
قادری صاحب نے جو کہا تھا وہ کرکے بھی دکھایا جہاں تک ان کی استطاعت تھی جہاں تک ان سے ممکن ہو سکا وہ وہاں تک اس ملک کی عوام کے لیے گئے لیکن جن لوگوں نے عوام کی اکثریت کو عوام کی پکار کو جس طرح نظر انداز کر کے سامراجی قوتوں کی حمایت میں خاموشی اختیارکئے رکھی۔
ان لوگوں نے اس بات کو تقویت پہنچائی ہے کہ وہ کسی تبدیلی کے خواں نہیں ہیں بلکہ اسی کرپٹ نظام کے حامی ہیں اور اسی نظام کے تحت اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں جو کہ ایک انتہائی سیاسی غلطی کے سوا کچھ نہیں۔ جس کا اندازہ انہیں آنے والے انتخابات میں بخوبی ہو جائے گا۔جو لوگ نظام کی تبدیلی کے بغیر ووٹ سے تبدیلی لانے کی باتیں کرتے ہیں وہ یہ کیسے بھول گئے ووٹ سے تبدیلی جب آئے گی جب عوام ووٹ ڈالنے خود جائے گی۔
ووٹ سے تبدیلی جب آئے گی جب عوام کے ووٹ کو اہمیت دی جائے گی۔ووٹ سے تبدیلی جب آئے گی جب عوام خود منتخب کر کے نمائندے ایوانوں میں پہنچائے گے موجودہ سیاست دانوں کو جب عوام کے ووٹوں پر اتناہی اعتماد ہے تو پھر کیوں سیاسی لوٹوں کی رسا کشی میں مصروف ہیں۔۔؟مطلب صاف ہے کہ موجودہ نظام میں سیاستدانوں کو عوام کے ووٹوں کی نہیں سیاسی لوٹوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔
لہذ اقادری صاحب کو موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے چاہیئے کہ اپنے رقیبوں کی زبانوںکو تالا لگانے کے لیے جلد از جلد پارٹی کو رجسٹرد کروائیں اور آنے والے انتخابات میں اپنی پارٹی سے قابل اور اہل لوگوں کوٹکٹ دیں تا کہ ملک میں تبدیلی کی فضاء کو یقینی بنایا جاسکے اور ملک میں فِلفورایک عوامی جلسے کا انعقاد کر کے انقلاب کو خیر باد سمجھنے والوں کویہ بتا دیں کہ پکچر ابھی باقی ہے۔
Imran Rajput
تحریر : عمران احمد راجپوت لطیف آباد ،حیدرآباد (سندھ) موبائل نمبر 0332-2641491 Email: imranraj_hhh@yahoo.com