رحم دل بادشاہ اور عقل مند مشیر

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

پیارے بچوں ہمیں ظالم حکمرانوں اور غلط مشیروں سے بچنا،رحم دلی اور عقل مندی سے کا لینا چاہیے۔آج میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں جس میں ایک شخص کی رحم دلی اور دوسرے کی عقل مندی پوری ریاست کو ایک بڑی مشکل سے با آسانی بچا لیتی ہے۔

کسی ریاست میںتین صدیوں تک ظالم حکمرانوں کے ظلم سے تنگ آکر عوام نے بغاوت کر دی۔نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے حکمران خاندانوں کے ایک ایک فرد کو چن چن کر مار ڈالا اور فیصلہ کیا کہ اب حکمران اس کو بنایا جائے جو ریاست کا سب زیادہ نرم دل شخص ہو اور اُس کے خاندان میں بھی کبھی کسی نے ظلم نہ کیا ہو۔

بڑی تلاش کے بعد آخر کار اُس ریاست کے عوام کو ایسا حکمران مل گیا جس کی پچھلی سات نسلوں میں کوئی ظالم پیدا نہیں ہوا تھا۔

اُس کی رحم دلی کے چرچے دور دور تک پھیلے تھے ،پورا خاندان عدل انصاف کا پیکر تھا سواُس شخص کو رحم دل کا خطاب دے بادشاہ بنادیا گیا۔جلد ہی آس پاس کی ریاستوں میں بھی رحم دل بادشاہ کی رحم دلی مشہور ہونے لگی اور ریاست تیزی سے ترقی کرنے لگی ،چاروں طرف بہار ہی بہار نظر آنے لگی عوام بہت خوش تھے کہ اُن کی ظالم حکمرانوں سے جان چھوٹ گئی۔

بدقسمتی سے چند برسوں میں ہی ریاست میں جرائم کا تناسب بڑنے لگا اور امن وامان کی صورت حال خراب ہونے لگی اور حالات رحم دل بادشاہ کے قابو میں نہ رہے۔وہ پریشان تھا کیونکہ اگر وہ سخت سزائوں کا اعلان کرتا تواُس کی رحم دلی پر حرف آتا تھا اور اگر مجرم کو سزا نہ دی جائے تو جرائم کی روک تھام ممکن نہیں رہتی۔رحم دل بادشاہ نے اپنے وزیروں اور سفیروں کو مشورے کے لیے بلا لیا۔

تمام وزیروں اور سفیروں نے سخت سزائوں کی حمایت کردی ،صرف ایک بزگ مشیر چپ تھا ،رحم دل بادشاہ نے اُس بزرگ مشیر کے علاوہ سب کو جانے کا کہا جب سب چلے گئے تو بادشاہ نے مشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میاں جی اگر میں کسی مجرم کو سزائے موت دوں تو میری رحم دلی کا بھرم قائم نہیں رہتا اور اگر سزانہ دی جائے توجرم نہیں رکتا آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟کیا مجھے حکومت چھوڑ دینی چاہیے ؟مشیر نے خاموشی توڑی اور بادشاہ کو مشورہ دیا کہ آپ سخت سزائوں کا اعلان کر دیں گے تو کاقی حد تک جرائم کم ہوجائیں گے اور جو باقی بچیں گے وہ بھی کسی مجرم کو سزائے موت دیے ختم ہو جائیں گے۔

Crime

Crime

اس طرح آپ کی رحم دلی کا بھرم بھی قائم رہے گا اور ریاست بھی جرائم سے پاک ہو جائے گی ۔بادشاہ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا اور اس نے حیران ہو کر مشیر سے پو چھایہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ سخت ترین سزائوں کا اعلان کرنے کے بعد ان پر عمل کئے بغیر جرائم ختم ہو جائیں؟مشیر نے کہا بادشاہ سلامت میرا اعتبار کریں اور سخت ترین سزائوں کا اعلان کردیں میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ایک بھی شخص کو مارے بغیر موت کی سزاپر عمل ہو جائے گا۔

رحم دل بادشاہ نے اگلے ہی دن ریاست میں ہر چھوٹے بڑے جرم کی سزاموت کا اعلان کردیااور مشیر کے مشورے کے مطابق اگلے ہی دن 10مجروں کا سر عام سر قلم کرنے کے بعد ان کی لاشیں جلا دیں۔اس دن کے بعد ہر مجرم نے جرم سے توبہ کرلی اوراس طرح ریاست میں ہر چھوٹا بڑا جرم ختم ہوگیا۔ امن ومان کی صورت حال بحال ہوگئی اور ریاست پہلے کی طرح تیزی سے ترقی کرنے لگی عوام پھر سے خوشحال ہوگئے۔اب آپ حیران ہوں گے کہ 10لوگوں کا سرقلم کرنے پر بھی سزائے موت پر عمل نہیں کیا گیا آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟بچو مشیر بہت سمجھدار تھا اُس نے 10کے10مجر م خود بناے تھے جی ہاں وہ 10انسان نہیں پتلے بنائے گئے اور ان کو انسانی روپ اور جانوروں کا خون لگا کر مجرموں کو سبق سکھانے اور جرم سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

10لوگوں کو سزا موت دی گئی لیکن ریاست میں کسی ایک گھر کا فرد بھی کم نہ ہوا ،اتنی بڑی ریاست میں عوام اس بات کی خبر بھی نہ ہوئی کہ رحم دل بادشاہ نے اپنے عقل مند مشیر کے مشورے سے بغیر کسی کی جان لیے ریاست کو تمام جرائم سے پاک کر دیا۔پیارے بچو دیکھا آپ نے اگر ہم رحم دلی اور عقل مندی سے کام لیں تو مشکل سے مشکل مسئلہ بھی آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔

 Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر:امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com.03154174470