گزشتہ رات گلبرگ لاہور میں واقع ایک شادی ہال میں منعقدہ محفل نعت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ، محفل نعت ایک متبرک ، روح پرور ،دلوں کو گداز بخشنے والی محفل ہوتی ہے سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت اور ثناء خوانی کا اہتمام کرنا ہر امتی کے لیے فخر و انبساط کا امر ہے اور اگر اس نام پر بپا کی گئی محفل اپنا احترام ،وقار اور سوزدروں ہی کھو بیٹھے تو کسی بھی صاحب ذوق و شوق کے لیے دل گدازی کی بجائے دل آزاری کا سامان پیدا ہونا عین فطری عمل ہے میں جسے سعادت سمجھا اور حاضری دی میرے لیے اس نے دل گرفتگی و دل شکستگی کو میرا نصیب بنا دیا میں سوچتا ہوں کہ گولڑہ کے تاجدار پیر مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ نے کتنا درست فرمایا تھا ”کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء ، میاں محمد بخش نے کہا کہ ”خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں کرنی چاہیدی ، کتنا درست کہا تھا ایسی محفل جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ مطلوب تھا وہاں شوبز کے مجریائی اور فقیروں کے بھیس میں بہرو پیئے براجمان ہوں تو طبعیت کا مکدر ہونا لازم ہے۔
مجھ پے بھی یہی گزری ،یہ ڈبہ پیر قسم کے جملہ شرعی عیوب کے حا ملین، وال چاکنگ اور اشتہاری عاملین”بنا کر فقیروں کا بھیس ہم غالب ”کے مصداق غیر حقیقی حال اور کیف کا ڈرامہ رچا کر کب تک لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں ایسے لوگ جو محض نمود و نمائش اور دکانداری کے مشتاق ہیں وہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل کے کار مختار ہونگے تو اہل درد کیلئے ایک امتحان کی گھڑی ہی ہو گی۔ پوری دنیا میں شرق تا غرب،شمال تاجنوب ،فرش تا عرش ،،وما ارسلنک الارحمة اللعالمین” کی آفاقی صفت والے پیغمبر انسانیت ، رسولِ رحمت ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف کا سلسلہ عروج پر ہے بلکہ جہاں پر ”سلسلہ عروج ”کا اختتام ہوتا ہے وہاں سے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بلند ی کا سفر شروع ہوتا ہے ”با ادب ، بانصیب” ایک مشہور مقولہ ہے، جتنا زیادہ ادب و احترام کے تقاضوں کا خیال رکھا جائے گا اتناہی زیادہ ہماری جھولیوں میں فیوض و برکات آئیں گے محافل نعت میں جو بدعات در آئی ہیں ان کے خا تمے کے لیے ہر صاحب ایمان کو اپنے تئیں کو شش جا ری رکھنی چاہیے کیونکہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں ذرا سی کو تاہی ہمیں دنیا اور آخرت کی دولت سے محروم کر سکتی ہے محافل نعت کے تقدس اور احترام کے حوالے چند چیزیں بہت ہی ضروری ہیں جن کا خیال رکھنا ایک امتی کے لیے از بس لازم ہے ایک شعر ہمارے اکثرنعت خواں، کیا جاہل خطباء اور کیا کمرشل سٹیج سیکرٹری ؟ بڑے دھن گرج کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ گر حبیب تو برا نہ مانے تو محبت کی اساس رکھ لوں جسم زمانے کو بھیج دوں اور سایہ پاس رکھ لوں لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔ میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس طرح کے الفاظ اور مفہوم استعمال کرنا حرام ہے ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ماہی، سوہنا، مکھڑا، ڈھول یا ایسے ہی دیگر عام الفاظ استعمال نہیں کیے جا سکتے۔
Eid Milad Un Nabi
میں کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو عام دنیاوی محبت پر قیاس ہی نہ کیا جائے جب یہ بیماری ختم ہوگی تو علاج خود بخود ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سنتا جانتا ہے… اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آوازسے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبرتک نہ ہو ، (الحجرات1،2ترجمہ، کنزالایمان) ایک ناقص اور ایسا کلام جو بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایانِ شان نہیں میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اور نہ ہی باریک بینی میں۔ مثلاً چند مشہور نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ 1۔ حلیمہ کلی نوں ویکھے کدی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوں و یکھے 2۔ میں کچھ وی نئیں جے تیرے نال میری کوئی نسبت نئیں 3۔ آو آو بازار مصطفےٰ کو چلیں کھوٹے سکے یہیں پہ چلتے ہیں 4۔ لبھ کے لیاواں کتھوں سوہنا تیرے نال دا 5۔ محفل نوں سجائے رکھنا اوہدے آن داویلا اے وغیرہ ایسی اور بہت ساری ہیں جو بالکل ٹھیک نہیں آپ غورکریں کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے ساری کائنات کو اعزاز و اکرام ملا۔ عزت اور وقار ملا۔ حضرت حلیمہ کے گھر کو کلی یا کٹیا کہنا کیسے درست ہے اس کو ہمارا جاہل نعت خواں کلی اور کٹیا کہے جار ہا ہے جس کا مقام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے سبب عظیم ترین ہو گیا اور ایک اور بھی بیماری ہے جس کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
اب غور فرمائیں کہ حلیمہ سعدیہ حضور علیہ السلام کی ماں ہیں اور لوگ انہیں دائی حلیمہ کہتے ہیں یہ بھی جسارت ہے کم ازکم دائی کے بجائے مائی ہی کہہ دو تاکہ ادب ملحوظ رہے دوسرا مصرعہ یہ بھی محض اداکاری ہے۔ تیسرا مصرعہ کہ دربار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھوٹے سکے چلتے ہیں بالکل خلافِ حقیقت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کھوٹے کی نہیں کھرے کی قدرو قیمت ہے اور وہاں آنے والا کھوٹا رہ ہی نہیں سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر باہر سے اجال دیتے ہیں چوتھا مصرعہ ہے دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا اللہ کریم نے ساری کائنات میں کوئی پیدا ہی نہیں کیا اور یہ دیکھو سوہنا تلاش کرتا پھرتا ہے جب کوئی ہے ہی نہیں ، تو تلاش کرنا عبث ہے اسے تلاش کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اگلا مصرعہ دیکھیں کہ ”محفل نوں سجائے رکھنا اوہدے آن داویلا اے” اس طرح کا تصورغلط ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر محفل میں آرہے ہیں ، ہمیں ایسی خرافات سے محفوظ رہنا چا ہیے۔
Pakistan Mehfil e Milad
الحمد للہ پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں محافل میلاد ونعت کی صورت میں عظمت و رفعت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم روز بروز بڑھ رہا ہے اور اللہ تعالی کے اس واضع اعلان ”ورفعنالک ذکرک ”کا عملی مظاہرہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس عظیم الشان بشارت کہ ”بیشک (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)آپ کی (ہر) بعد والی (ساعت)آپ کیلئے پہلی (ساعت)سے بہتر ہے ”(الضحی ،4)کے بعد کسی صاحب ایمان کے ذہن میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و توقیر اور منصب میں ہر آن اور لحظہ بہ لحظہ ترقی اور بلندی ہو رہی ہے اور اللہ تعالی اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر پاک کو جملہ عالمین میں بالعموم اور اس آب وگل میں بالخصوص قریہ بہ قریہ ،کو بہ کو بستی بہ بستی ،گھر بہ گھر ،گام بہ گام ہر آنے والے لمحہ میں بلند تر کر رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر خیر سے اپنے دلوں کو منور کرنے والے ذاکرین کی تعداد ہر طلوع ہونے والے دن اور ہر چھاجانے والی رات کے ساتھ حیر ت انگیز رفتارکے ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے کہ یہی منشائے پروردگار ہے۔
اللہ کے پیارے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پاک کی پاکیزہ ،مصفی اور مقدس محفلیں سجانا اور اپنے آقا و مولی کے حضور درود وسلام کے نذرانے پیش کرنا صحابہ کرام ،تابعین ،تبع تابعین ،سلف صالحین ،آئمہ دین ،محدثین ،مفسرین اور اولیائے کا ملین کا پسندیدہ اور محبوب ترین عمل رہا ہے گذشتہ ساڑھے چودہ صدیوں سے حلقہ بگوشان اسلام دنیا بھر میں نسل درنسل انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ اس روشن راہ پر چلتے ہوئے اپنے رب کی رضا کی منزل پانے کی سعی مسعود کرتے چلے آرہے ہیں وطن عزیز میں بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام سال بھر مقصود کائنات ،جان کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کی محافل منعقد کرنے میں سرشارنظر آتے ہیں بالخصوص ما ہ مقدس ربیع الاول شریف کا چاند طلوع ہوتے ہی مساجد ، پبلک ہالز اور گرائونڈز ہی نہیں گھر گھر، گلی گلی، قریہ قریہ بستی بستی ،کو چہ کوچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پاک اور ثنا خوانی کی محفلیں سجنے لگتی ہیں بلکہ اب تو وہ لوگ بھی جو کبھی محافل کو بدعت وشرک تصور کرتے تھے مسلمان عوام سے رشتہ قائم رکھنے اور اپنی گرتی ہوئی سیا سی ساکھ کو بچانے کیلئے اپنے ہاں بھی اس قسم کی محافل منعقد کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اوریہ خوش آئند بات ہے ہمیں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی منانا چاہیے اورسیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنانی چاہیے ہم میلادالنبی توشوق سے مناتے ہیں مگر سیر ت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپناتے ہوئے ذرا مشکل در پیش آتی ہے۔
حالانکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھی وہ اکسیر اور نسخہ کیمیاء ہے جس میں ساری روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج ہے۔ محافل میلادونعت کے تقدس ،پاکیزگی اوراحترام کا تقاضہ ہے کہ ان پاکیزہ محافل کے منتظمین اور شرکاء ادب واحترام کی حدود وقیود کا پورا اہتمام رکھیں اور دربار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب کے منافی بھول کر بھی کوئی ایسی حرکت نہ کریں کہ جس سے رب ذوالجلال ہمیں اپنی گرفت میںلے لے کیونکہ یہ اسی پاکیزہ ہستی کی بارگاہ ہے جہاں پر ملائکہ کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی ادب و احترام کے تمام تقاضے ملحوظ خاطررکھ کر حاضری کی سعادت حاصل کرتے تھے اور آج کل ہمارے نعت خواں حضرات ادب واحترام کا خیال نہیں رکھتے اور اچھل اچھل کر گانوں کو طرز پر نعت خوانی کررہے ہوتے ہیں۔بلکہ بعض نعت خواں حضرات تو موبائل ”سٹوڈیو” ہی ساتھ لئے پھرتے ہیں اور عجیب و غریب آوازیں نکال کر نعت خوانی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ نعت خوانوں کے ”بھڑ کیلے”اور”شو خ لباس”ہی اس بات کی نفی کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ ثناخواں ہیں ؟ راقم کے خیال کے مطابق ایسے انداز سے نعت خوانی کرنامحفل نعت کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور محفل میں پاکیزگی اور طہارت کی وہ روح باقی نہیں رہتی جس کے حصول کے لئے غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوردراز کا سفر طے کر کے آئے ہوتے ہیں بعض اچھے بھلے معروف نعت خواں حضرات کو دیکھا گیا ہے کہ وہ خود بھی عجیب وغریب انداز سے اچھل رہے ہوتے ہیں اور سامعین کو بھی زبردستی ہاتھ اوپر اٹھانے اور لہرانے کو کہہ رہے ہوتے ہیں حالانکہ محفل نعت کے تقدس کا تقاضایہ ہے کہ خاموشی اور ادب و احترام کیساتھ تشریف فرما ہوں۔
Sheikh Saadi
بعض نعت گو حضرات نے بھی حد کردی ہے جس کو دو حرف لکھنے اور پڑھنے آجاتے ہیں وہ قلم اور کاغذ اٹھاتا ہے اور سیدھا بارگاہ نبوی میں پہنچ جاتا ہے حالانکہ شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ جیسا فصیح وبلیغ انسان بھی جب نعت لکھنے بیٹھتا ہے تو فصاحت وبلاغت اورحکمت دانش کی فراوانی کے باوجود بھی ایک مقام ایسا آتا ہے کہ آپ عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور پھرجہاں عاجزی وانکساری کی فراوانی ہو پھر وہاں رحمت عالم ، رہبر انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راہنمائی فرماتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں سعدی رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کہو ”صلو اعلیہ والہ”آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے پاکیزہ الفاظ آج آفاقی شہرت اختیار کر گئے ہیں حالانکہ نعت گوئی کے میدان میں ادب اور حکمت ودانش کے سانچے میں ڈھلے ہوئے بڑے معروف نعت گوحضرات کا کلام دستیاب ہے جن میں جوش ملیح آبادی ،آغا شورش کا شمیری ، احمد ندیم قاسمی ،نعیم صدیقی ،ضمیرجعفری ،محسن کا کوروی ، حفیظ تائب ، امیر مینائی ، ماہر القادری ،صبام تھراوی ،حفیظ الرحمن احسن ،علامہ اقبال، نظرزیدی ، اعلی حضرت امام حمدرضا بریلوی،حسن رضاخان ،شیخ سعدی،بیدم وارثی،حضرت رومی ،حضرت جامی ،امام بوصیری وغیر ہ شامل ہیں مگر ہم نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ان کے کلام کو پڑھا جائے پڑھنا تو درکنار ہم تو چھونا بھی ”گناہ ” سمجھتے ہیں فکری مرشد سید خورشید احمد گیلانی رحمتہ اللہ علیہ نعت کے حوالے سے فرماتے ہیں۔ ”نعت دراصل مومن کا وظیفہ حیات ،ادیب کا سرمایہ فن ،دانشور کی آبروئے فکر ،اہل دل کا سامان شوق ،شب زندہ دار کی آخری بانگِ بلال ،پروانے کا سوز ،بلبل کا ساز قلب کا گداز ،آئینہ روح کی تاب ،آبشار محبت کا ترنم ،قلزم عشق کی موج ،منزل سعادت کا چراغ،کتاب زیست کا عنوان ،حیات عشق کی گرمی ،سینہ کائنات کا راز ،دیدہ نمناک کا موتی ،خاک حجازکی مہک ،فضائے طیبہ کی نکہت،ازل کی صبح ،ابد کی شام اورشاعر کے رتجگوں کا حاصل ہے ۔نعت سے غنچہ روح کھلتا،چشمہ جاں ابلتا،گلشن ایماں مہکتا،بحرشوق امڈتا،افق فکرچمکتا ،سینہ ذوق مچلتا،قلب کون و مکاں دھڑکتا،حسن زندگی نکھرتا اور قد شعر و فن ابھرتا ہے ”۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں ”حضرت بلال کی اٹوٹ نسبت،حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی شاہکار بلاغت ، کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی لسانی طاقت ،رومی رحمتہ اللہ علیہ کی دانش وحکمت ،جامی رحمتہ اللہ علیہ کی سچی عقیدت ، سعدی رحمتہ اللہ علیہ کی لافانی فصاحت ، قدسی رحمتہ اللہ علیہ کی بے آمیز محبت ، بوصیری کی روحانی حلاوت ، مرزابیدل کی فلفسیانہ حیرت ،اقبال کی عبقریت، امیرمینائی کی طویل ریاضت ،غالب کی معانی آفرین ادبیت ، فاضل بریلوی کی غیر مشروط محبت ،شبلی کی پاکیزہ روایت ، سلیمان ندوی کی عالمانہ متانت ، بیدم وارثی کی ادائے فنائیت ،محمد علی جوہر کی سکہ بندخطابت،حسرت موہانی کی فنی مہارت ، بہادر یار جنگ کی ایمانی حرارت،ظفر علی خان کی بے پناہ جرات ، نعیم صدیقی کی فکری طہارت ، جوش ملیح آبادی کی ادبی سطوت ، عبدالعزیز خالد کی مسلمہ علمیت اور حفیظ تائب کی عاشقانہ بصیرت جب شاعری کے قالب میں اترتی ہے تو نعت کی صورت اختیار کر لیتی ہے ”(جاری ہے )