زبان کاٹ دی جائے

Pervaiz Ashraf

Pervaiz Ashraf

ایک بادشاہ کسی شہر سے گزر رہا تھا کہ راستے میں اُس نے ایک کمہار کے گدھوں کو لائن میں چلتے دیکھا وہ کسی کو لائن سے ادھر اُدھر نہ ہونے دیتا ، بادشاہ نے کمہار کو روک لیا اور اُس سے پوچھا کہ تم اِن گدھوں کو کس طرح ایک لائن میں رکھتے ہوں کمہار نے جواب دیا حضور والا میں اِن میں سے جو لائن توڑتا ہے اُس کو سزا دیتا ہوں بادشاہ بولا میرے ملک میں امن و امان قائم کر سکتے ہوں ، کمہار نے اثبات میں سر ہلایا اور بادشاہ کے ساتھ چل پڑا۔ دارالحکومت پہنچتے ہی کمہار نے عدالت لگا لی چور کا مقدمہ آیا تو اُسے مکمل سننے کے بعد ہاتھ کاٹنے کی سزا دی اور جلاد کو حکم صادر کر دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے جلاد نے اشارے سے وزیر اعظم کی طرف اشارہ کیا کہ یہ اِن کا خاص بندہ ہے ،کمہار نے پھر حکم دیا کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے وزیر اعظم سمجھا کہ شاید اِس کو میری بات سمجھ نہیں آئی اور کمہار کے کان کے قریب جا کر سرگوشی میں کہا کہ یہ اپنا خاص بندہ ہے تو کمہار نے بطور جج فوراً فیصلہ دیا کہ وزیر اعظم کی زبان کاٹ دی جائے ، بادشاہ نے فیصلہ پر عمل کرایا اور یوں ایک فیصلے سے ہی آگ و خون میں لپٹے ہوئے ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔

اگر دیکھا جائے تو یہ کہانی ہمارے معاشرے سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے ہم بلند و بانگ دعوے تو کرتے ہیں اور نعرہ بھی لگاتے ہیں کہ سب کے ساتھ انصاف ہوگا ہر کام میرٹ پر کیا جائے گا کسی کے ساتھ کسی بھی طرح کی ناانصافی نہیں ہوگی مگر عمل ندارد اور یہ دعوے صر ف دعوے ہی رہ جاتے ہیں ، ان سہانے اعلانات کے بعد تمام محکمہ جات اور خصوصاً عدالتوں غرضیکہ کے تمام انتظامی اداروں میں احکامات جاری کردئیے جاتے ہیں کہ سب کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جائے اور روگردانی کی صورت میں سخت تادیبی کاروائی کی جائے گی مگر کیا واقعی ایسا ہو بھی پاتا ہے ، انتہائی معذرت اور افسوس کے ساتھ انصاف صرف یہ لوگ اپنی مرضی کا مانگتے (یا یوں کہنا بجا ہوگا کہ انصاف صرف اپنے فائدے کا چاہتے ہیں) نوکریاں دینے کا اعلان کرنے کے بعد سفارشوں اور فون کالز کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور حق دار کو اُس کے حق سے محروم کرکے اپنے چہیتے اور من پسند لوگ بھرتی کرلئیے جاتے ہیں اور یو ں میرٹ کے اصولوں کے سرعام دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔

Courts

Courts

عدالتوں میں کوئی کیس چلا جائے تو ہر طرح سے عدلیہ پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ فیصلہ صرف اپنی مرضی کا حاصل کیا جائے اور عدلیہ دبائو میں نہ آئے تو پھر اُس کی کردار کشی شروع کر دی جاتی ہے اور سخت نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں صرف کس لئیے کہ اپنی مرضی کا انصاف حاصل کیا جائے (جو کہ انصاف سے کوسوں دور ) یہ کیسا انصاف ہے کیا نعرے اور دعوے صرف اپنے رفقا و چہیتوں کیلئے ہی رہ گئے ہیں اور عام عوام کیلئے صرف دھکے گالیاں اور ذِلت۔ راقم کو بذات خوب بھی اِس چیز کا بخوبی علم ہے اور اِ س بات کا چشم دید گواہ بھی کے عام انسان کے ساتھ تھانوں میں کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے کوئی بھی کام میرٹ پر نہیں ہوتا صرف پیسہ سے کیا جاتا ہے اور اپنے حق پر ہوتے ہوئے بھی اگر آپ کے پاس رشوت کی رقم نہ ہو یا کوئی انتہائی مضبوط سفارش موجود نہ ہو تو پھر آپ ہزار ہا کوشش کر لیں آپ کی ایف آئی آر درج نہیں ہو گی اور آپ کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا جاتا ہے ، اگر میر سے اس کالم کے بعد پنجاب کے خادم اعلیٰ چاہے تو میں تمام دستاویز اور ثبوت بھی فراہم کر سکتا ہوں کہ کس طرح اور کیسے انصاف کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔

خیر باتوں میں بات کہاں سے کہاں تک چلی گئی لیکن صاحبو یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ جب تک انصاف کے مواقع سب کیلئے یکساں نہیں فراہم کئیے جائیں گے تب تک معاشرے میں استحکام کا پیدا ہونا نا ممکن ہی ہے ، اور یہی اسی صورت میں ممکن ہو گا جب انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی زبان کاٹ دی جائے خواہ وہ کتنے ہی بااثر ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک انتہائی مشہور اسلامی کہاوت ہے۔ کفر پر مبنی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم و ناانصافی پر نہیں۔

تحریر : امجد قریشی

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi