میں اسے پاکستان کا المیہ ہی کہوں گا کہ اب سیاست جیسا مقدس پیشہ دھندے اور کاروبار کا روپ اختیار کر چکا ہے اور جب کوئی چیز دھندا بن جائے تو اس میں دھندے والے سارے عوامل یکجا ہو جاتے ہیں جس کا واحد مقصد مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ دھندہ ایک ایسی بلا کا نام ہے جس کا مدعا صرف اور صرف مالی منفعت ہو تا ہے۔ اس میں اصول پسندی،قدروں اور جذ بوں کی صداقت نہیں ہوتی۔ اگر قدریں سیاست کی پہچان بن جائیں گی تو پھر یہ دھندا نہیں رہتا بلکہ عبادت بن جا ئے گا۔ سیاست بنیادی طور پر خد متِ خلق جیسے انتہائی بلند مقصد کا نام ہے لیکن چند نا عاقبت اندیش سیاستدانوں نے اسے تجارت کا روپ بخش دیا ہے۔ پہلے لگائو پھر کمائو۔ ٹکٹوں کی سیل ،صوابدیدی فنڈز کا حصول ، فائلوں کی خرید و فروخت میں منفعت اور پھر الیکشن پر کروڑوں روپے کے اخراجات اس دھندے کی سنگینی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ پرانے وقتوں میں سیاست ایک عبادت کا درجہ رکھتی تھی بالکل مذہبی رسومات کی طرح لیکن جب سے یہ دھندا بن گئی ہے تب سے معاشرہ د ھیرے دھیرے تباہی کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔ مستقل اقدار اور اخلاقی رویوں پر کیفیتِ مرگ طاری ہے۔
سیانوں کا قول ہے کہ دھندے کا منطقی نتیجہ افرا تفری اور بے چینی ہوتا ہے اور یہی آج کل ہمارے معاشرے کا طرہِ امتیاز بنا ہوا ہے کیونکہ مقصدِ سیاست صرف حصولِ دولت رہ گیا ہے۔ پارلیمنٹ کا ممبر بننے اور وزارتوں کے حصول کے بعد عوام کا درد دل سے یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ عوام کو ایک دفعہ پھر اگلے الیکشن کی بتی کے پیچھے لگا یا جا رہا ہے اور انھیں دلفریب نعروں سے بیوقوف بنانے کی سازش پورے زوروں پر ہے۔ یہ ناٹک (کھیل تما شہ) پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے اور عوام اس سرکس کو دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں۔ وہ اس میں تبد یلی چاہتے ہیں لیکن انھیں کوئی راہ دکھائی نہیں د ے رہی۔ جمہوریت کی حد تک تو سب کا اتفاق ہے لیکن فیوڈل جمہوریت پر نہیں بلکہ اس جمہوریت پر جس میں عوام اپنے مقدر کے مالک بنتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت صرف ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے جس سے عوام بغاوت پر آمادہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوری نظام کے ثمرات عوام تک بھی پہنچیں اور ان کی حالتِ زار میں بھی تبدیلی رونما ہو جائے جو صرف اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب موجودہ جمہوری نظام کی جگہ نیا انتخابی نظام متعارف کروایا جائے۔ اس وقت انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تا کہ پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
متوسط طبقے کیلئے موجودہ جمہوری نظام میں اپنی جگہ بنانا جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ انتخاب میں حصہ لینے کی ان کی استطاعت نہیں ہوتی اور غنڈوں موالیوں سے لڑنے کی ان میں قوت نہیں ہو تی اور یوں پاکستانی سیاست مخصو ص خاندانوں کی گرفت سے بچ نہیں پاتی۔ سیاسی جماعتیں اسی مخصوص گروہ کو اپنا امیدوار نامزد کرتی ہیں جو علاقے میں رعب دبدبہ اور اثر رکھتا ہے۔
Quaid e Azam
اس میں کوئی کلام نہیں کہ پاکستان ایک جمہوری عمل کا انتہائی خوبصورت تحفہ ہے لیکن کیا اس وقت سیاست اسی انداز کی ہے جس طرح کی سیاست نے ہمیں پاکستان تحفے میں دیا تھا ؟۔ تحریکِ پاکستان دراصل دو قومی نظریے کی جنگ تھی جسے قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بڑی بے جگری سے لڑا تھا جبکہ 1967 میں پی پی پی کی تشکیل اس اصول پرتھی کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اور وہی اس ملک کے حقیقی وارث ہیں اور اس انقلاب کا علم ذولفقار علی بھٹو نے بلند کیا تھا لیکن اب سیاست پر ایسا وڈیرہ گروپ قابض ہو چکا ہے جو عوام کا خون چوس رہا ہے اور جس کیلئے اس کے مفادات کا حصول اس کی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ ایسے گروہ کی زبان پر نام تو عوام الناس کا ہی ہو تا ہے لیکن ان کے اعمال اپنے دعووں کے بالکل بر عکس ہو تے ہیں کیونکہ عوام الناس کا نام تو انھیں اپنے پھیلائے گئے جال میں پھانسنے کیلئے لیا جاتا ہے۔
ہمارے شہر میں اک شخص بے لباس نہیں ۔۔۔ سبھی ہیں پہنے ہوئے اپنی اپنی خود غر ضی (طاہر حنفی) 23 دسمبر 2012 کو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے پاکستان تشریف لائے اور مینارِ پاکستان پر ایک تاریخی جلسے میں تبدیلی کا نعرہ بلند کر دیا۔ تحریکِ انصاف کے عمران خان اس سے قبل کئی سالوں سے اسی قسم کی تبدیلی کی راہ ہموار کر رہے تھے اور نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ان کی آواز پر لبیک بھی کہہ رہی تھی لیکن وہ کوئی بھی جارحانہ انداز اور بڑا قدم ا ٹھانے میں ناکام ہو رہے تھے جس سے تبدیلی کے حواہاں طبقے کے جذبات کو دھچکا بھی لگا تھا اور مایوسی بھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت کا طلسم آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگاتھا ۔عوام روائیتی سیاست دانو ں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن کوئی ان کی داد رسی نہیں کر رہا۔ عمران خان سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تبدیلی کے نعرے کی مقبولیت میں کمی ہونا شروع ہو چکی ہے۔
Imran Khan
اببھی سٹیٹس کو اور عمران خان کے درمیان تبدیلی کا یہ معرکہ جاری تھا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے14 جنوری کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر کے سیاست میں ایک طوفان پیدا کر دیا۔ تبدیلی کے خواہاں عوام ان کے گرد جمع ہو گئے اور تبدیلی کے نعرے کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے ان کے ساتھ ہو لئے ۔13 جنوری کو لاہور سے شروع ہونے والا ان کا لانگ مارچ 38 گھنٹوں کی مسافت کے بعد اسلام آباد پہنچا تو ہزاروں افراد نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور یوں ان کے مجوزہ دھرنے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت نے اسے پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا بنا دیا۔ اسلام آباد میں مظاہرین کا قیام پانچ دنوں تک رہا۔ اتنی شدید سردی میں شرکاء کا کھلے آسمان کے نیچے دھرنا دینا پاکستان کا ایک منفرد واقع ہے۔ چار سینٹی گریڈ سے بھی کم سرد ی میں صبر و تحمل اور براشت کے مظاہرے نے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ ہر تبصرہ نگار اس واقعے کو اپنے انداز میں دیکھ رہا ہے۔ چند ناقدین حاضرین کی تعداد میں الجھے ہوئے ہیں تو کچھ ذاتی حواہشوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن انھیں وہ جذبے نظر نہیں آرہے جو دھرنا دینے والوں کے دلوں میں موجزن تھے اور جس سے وہ تبدیلی کو ہر حال میں دیکھنا چاہتے تھے۔
اپنے چھوٹے چھوٹے لختِ جگروں کو اس جان لیوا دھرنے میں لے کر آنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تبد یلی کے خواب نے دھرنے د الوں کو آہن گداز بنا دیا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس تبدیلی کو برپا کر کے چھوڑیں گئے۔ حکمرانوں نے شروع میں اس لانگ مارچ کو بھی روائیتی انداز میں لیا جس کی وجہ سے وہ اس جذبے کو دیکھنے سے عاری رہے جو شرکائے لانگ مارچ کے دلوں میں موجزن تھے۔عام تاثر یہی تھا کہ یہ مارچ اپنے ہی بوجھ کے نیچے دب کر ختم ہو جائے گا اور حکومت کو پوائنٹ سکور کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔ اسی خیال کی وجہ سے اس لانگ مارچ میں کم رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت نے لاہور کی حد تک کافی پھرتیاں دکھائیں لیکن عوامی امنگوں کو کچلنے میں ناکام رہا اور پھر جب ایک دفعہ یہ لانگ مارچ شروع ہو گیا تو پھر اس کی راہ میں روڑے اٹکانا ممکن نہ رہا۔ حکومتی حلقوں کا خیال تھا کہ اتنی شدید سردی میں احتجاج کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ سوال ایک دن کا ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن یہاں پر تو ہفتوں کا مسئلہ تھا لہذا شرکاء کا اتنی دیر تک دھرنے کو جاری رکھنا ناممکن ہو جائیگا۔
حکومتی اہلکاروں کی سوچ بالکل درست تھی بظا ہر ایسا ہی نظر آرہا تھا کہ دھرنا اپنی افادیت، توازن اور دبدبہ قائم نہ رکھ سکے گا اور یوں اسے ناکامی سے دوچار ہو نا پڑیگا۔ لوگوں کو اتنی شدیدی سردی میں کئی ہفتوں تک روکے رکھنا معجزہ ہو گا اور یہ دور معجزوں کا دور نہیں ہے۔ پہلی رات تو کسی نہ کسی طرح سے گزر جائے گی لیکن اگلی راتوں میں کیا ہو گا یہ سوال سب کی زبان پر تھا لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس دھرنے نے پانچ راتوں تک کھلے آسمان کے نیچے بڑی ہمت،جرا ت اور مردانگی سے اپنے راستے کی ہر مشکل کو انتہائی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ شرکائے دھرنا میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے عزم کو میں نے بھی ٹیلیویژن کی سکرین پر دیکھا ہے۔ان کے ہشاش بشاش اور پر عزم چہرے اس بات کے غماز تھے کہ انھیں اپنے مقصد کی حقانیت پر کامل یقین ہے اور وہ اپنا مقصد حا صل کر کے ہی یہاں سے جائیں گئے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا شاہد ہوں کہ میں نے ان کے چہروں پر کسی قسم کا خوف یا ڈر نہیں دیکھا اور نہ ہی انھیں کسی شک و شبہ کی کیفیت کا شکار دیکھا ہے۔ وہ اپنے مقصد میں بالکل واضح تھے اور انھیں علم تھا کہ ان کا کردار کیا ہے، ان کی ذمہ داری کیا ہے اور وہ اس کردار کو ادا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار تھے۔
Rehman Malik
وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے کچھ بڑھکیں ضرور ماریں اور سپیشل آپریشن کا شوشہ چھوڑ کر فضا کو مکدر کرنے کی کوشش بھی کی لیکن صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت اور ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کے سخت موقف کی وجہ سے رحمان ملک کی خون خرابے کی حواہش ادھوری رہ گئی۔ رحمان ملک لال مسجد کی طرز کا کوئی قدم اٹھا ناچاہتے تھے اور اپنے ہی وطن کے معصوم اور نہتے شہریوں کو گولیوں سے بھون دینا چا ہتے تھے۔ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے تھے۔وہ بھول رہے تھے کہ لال مسجد کے مظاہرین اور اس لانگ مارچ کے مظاہرین میں زمین و آسمان کا فرو ہے۔ لال مسجد میں تو کچھ اسلحہ بردار بھی چھپے ہوئے تھے جبکہ اس دھرنے میں کسی کے ہاتھ میں اسلحہ نہیں تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا د ھرنا اور لانگ مارچ تھا لیکن کوئی بلب نہیں ٹوٹا، کوئی پتہ نہیں ٹوٹا ، ٹریفک کا کوئی سگنل نہیں ٹوٹا ،کوئی ٹائر نہیں جلایا گیا ،کوئی ہوائی فائرنگ نہیں کی گئی،کسی پر کوئی آتشیں گولا نہیں پھینکا گیا لہذا ایسے پر امن مظاہرے پر دھاوا بولنا انسانیت کے قتل کے مترا دف تھا۔
رحمان ملک کی طرح کچھ اور سیاسی قوتیں بھی اسی طرح کی امیدیں لگائی بیٹھی تھیں۔ وہ لاشوں پر سیاسی دوکان چمکانا چاہتی تھیں لیکن صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے ان سیاسی اداکاروں کی خواہشوں کو جس بری طرح سے بے اثر کیا وہ ملکی سیاست پر ان کی گہری نظر کا غماز ہے۔