اسلام میں عورت کا مقام

Muslim Girls

Muslim Girls

الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام خاتم المرسلین سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین  اشھد ان لا الہ الا اللہ  وھدہ لاشریک لہ واشھد ا ن سیدنا و مولانا محمدا عبدہ  اما بعد۔ شریعہ اسلامیہ (قرآن و حدیث)نے تمام ادیان اور مجتمعات شروع سے لے کر آج تک اور رہتی دنیا تک جو مقام عورت کو دیا ہے اس کا کوء دوسرا سوچ بھی نہیں سکتا اسی طرح اسلام نے ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق آزادانہ  زندگی گزارنے کا جو حق دیا ہے وہی حق اسلام نے عورت کو اس وقت دیا ہے۔

جب دنیا اس پر تنگ کر دی گئی تھی اور اس سے اس دنیا میں رہنے تک کا حق چھین لیا گیا تھا اور جب کسی پر زندگی تنگ کر دی جائے تو اس کو اور کیا کیا آازدیا ں ملتی ہوں گی اس کے تمام خواب جو اس نے اپنی آنکھوں میں سجائے تھے ان کی تکمیل کہاں سے ہوگی اور اس کو جانوروں کی طرح منڈیوں میں بیچا جاتا تھا یہ وہی معاشرہ ہے جو آج کے دور میں اپنے آپ کو ماڈرن گردانتا ہے اور اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں بعض اوقات عورتوں کا حق مرد سے زیادہ ہوجاتا ہے آج جب یہ معاشرہ اسلام کو عورت کے لیے قید گردانتا ہے تو ہم ان کو قرآن و حدیث سے یہ بتائیں گے کہ اسلام نے جو عورت کو مقام دیا ہے وہ آپ قیامت تک نہیں دے سکتے۔

عورت قرآن کریم میں:
شریعت نے عورت پر اسلامی مجتمع میں اس کی ولاد ت سے قفات تک بلکہ وفات کے بعد عمل کے مطابق سزا و جزا پر خاص توجہ دی ہے  قرآن کریم کی دو سورتیں  جو نازل کی ہیں ان میں سے ایک (النساء الکبری) اور دوسری (النساء الصغری) کے نام سے جانی جاتی ہیں اور یہ صورتیں سورة الطلاق اور  دوسری سورة مریم  جو دنیا میں سب سے پاک عورت کے نام سے ہے جن کو اللہ تعالی نے پوری دنیا کی عورتوں پر فضیلت بخشی ہے اور ان کا نام قرآن کریم میں تیس (٣٠) سے زیادہ دفعہ ذکر کیا گیا ہے۔

اسی طرح عورت کا ذکر قرآن کریم کی دوسری سورتوں میں (سورة البقرة)(المائدة)(النور)(الاحزاب)(المجادلہ)(الممتحنة)اور (التحریم) میں بھی آیا ہے ۔
اس وقت جب عرب معاشرے کے علاوہ دوسرے معاشروں میں عورت کی توہین کی جاتی تھی اس وقت میں قرآن کریم کی آیات کے نزول سے عورت کو احترام اور اور اس کو زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دینا یقینا بہت بڑا کام تھا ۔
زندگی میں عورت کا حق اسلام نے اس وقت سے عورت کو زندگی گزارنے کا حق دیا ہے جب زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی معصوم بچیوں کو زندہ درگور کرنا فخر سمجھتے تھے قرآن کریم اللہ تعالی نے فرمایا (وَاِذَا الْمَوْئ دَةُ  سُئِلَتْ ہلاص٨   بِاَیِّ ذَمنْبٍ قُتِلَتْ ہ)ترجمہ (اور جب دبائی ہوئی سے پوچھاجائے  کس خطا پر ماری گئی)(سورة التکویر ٨ ۔٩)زمانہ جاہلیت کے لوگ لڑکیوں کی ولادت پر اس لیے نفرت کا اظہار کرتے تھے کہ ان کی دوسرے قبائل سے دشمنیاں تھیں اور  وہ راتوں کو چھاپے مار کر دوسرے قبائل کی عورتوں اور لڑکیوں کو قیدی بنا لیا کرتے تھے اسی لیے وہ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیتے تھے ان میں دو قبیلے اسد اور تمیم اس میں بہت مشہور تھے  اسلام نے ان کیاسد رواج کو ختم کر دیا قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا
(وَاِذَا بُشِّرَاَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِیْم” ہج ٥٨  یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ  مِنْ سُوْئِ  مَا بُشِّرَ بِہ ط اَیُمْسِکُہ عَلٰی ھُوْنٍ  اَمْ  یَدُسُّہ  فِی التُّرَابِ ط اَ لَا سَآئَ مَا  یَحْکُمُوْنَ ہ)
ترجمہ(اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا اور وہ غصہ کھاتا ۔لوگوں سے چھپتا پھرتا اس بشارت کی برائی کے سبب کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا ارے بہت برا حکم لگاتے ہیں)(سورة النحل٥٨۔٥٩)۔اسی طرح اسلام نے غربت کے خوف سے  اولاد کو قتل کرنے چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں منع فرمایا ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا
( وَلَا  تَقْتُلُوْا   اَوْلَادَکُمْ   خَشْیَةَ   اِمْلَا قٍ  ط  نَحْنُ  نَرْزُقُھُمْ  وَاِیَّاکُمْ ط)
(ترجمہ)(اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم انہیں بھی اور تمہیں  بھی روزی دیں گے )(سورة الاسراء ٣١)اور دوسری جگہ فرمایا
( وَلَا  تَقْتُلُوْا  اَوْلَادَکُمْ  مِّنْ  اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ  نَرْزُقُکُمْ  وَاِیَّاھُمْ )(سورة الانعام  ١٥١)
(ترجمہ)(اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے
ثواب اور عقاب میں مرد اور عورت میں برابری:
اللہ تعالی نے کسی بھی عمل کی جزا اور سزا میں اس وقت اور ایسے معاشرے میںمرد اور عورت کو برابری کا مقام دیا جب اس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اللہ تعالی نے بڑائی اور بزرگی کا معیار تقوی کو قرار دیا اللہ تعالی نے قرآن کریم میں پوری انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

Muslime Hasbrnd Waife

Muslime Hasbrnd Waife

یاَیُّھَا  النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ  اللّٰہِ اَتْقٰئکُم

ترجمہ(آئے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بے شک اللہ کے یہاں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ جو تم میں  سے زیادہ پرہیزگار ہے(سورة الحجرات ١٣)کیونکہ مرد اور عورت ایک ہی جان سے پیدا ہوئے ہیں اسی لیے اللہ تعالی نے بڑائی اور بزرگی کا معیار تقوی کو قرار دیا  اللہ تعالی نے فرمایا

(ٰیاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ  خَلَقَکُمْ  مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ  وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ  الَّذِیْ  تَسَآئَلُوْنَ  بِہ  وَالْاَرْحَامَ  ط اِنَّ  اللّٰہَ  کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا  )
ترجمہ (آئے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک  جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے )(سورة النساء  ١)۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے ایسے مومنین جو زمین و آسمان خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے مغفرت کے طالب رہتے ہیں اور انہیں وہ کچھ حاصل ہو جاتا ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور ان  سے کیے گئے وعدے پورے لیے کیے گئے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کی زبان سے فرمایا
(فَاسْتَجَابَ  لَھُمْ رَبُّھُمْ  اَنِّیْ لَا  اُضِیْعُ  عَمَلَ عَامِلٍ  مِّنْکُمْ  مِّنْ  ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی ج بَعْضُکُمْ مِّنْ م بَعْضٍ )
ترجمہ (تو ان کی دعائیں سن لیں ان کے رب  نے کہ میں تم میں کام والے کی محنت اکارت نہیں کرتا مرد ہو یا عورت تم آپس میں ایک ہو )(آل عمران  ١٩٥)جیسا کہ اللہ تعالی نے مرد اور عورت کے لیے جزا و سزا میں مساوات کا ذکر فرمایا

( اِنَّ  الْمُسْلِمِیْنَ  وَالْمُسْلِمٰتِ   وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ   وَالْقٰنِتِیْنَ   وَالْقٰنِتٰتِ  وَالصّٰدِقِیْنَ  وَالصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا)
ترجمہ(بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں اورفرمانبرداراور فرمانبرداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور  روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ والیاں اور بہت زیادہ یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے )(سورة الاحزاب ٣٥)
مگر منافقین اور منافقات اور کفار کے لیے بھی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا

(وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ  وَالْمُنٰفِقٰتِ  وَالْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط ھِیَ حَسْبُھُمْ ج  وَلَعَنَھُمُ اللّٰہُ ج وَلَھُمْ عَذَاب”  مُّقِیْم)
ترجمہ (اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں کو جہنم کیا آگ کا وعدہ دیا ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ انہیں بس ہے اور اللہ کی ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے)(سورة التوبة ٦٨)مرد اور عورت کے لیے حساب ان کے اعمال کے مطابق ہو گا ۔
اسلامی حدود میں مرد اور عورت میں برابری :
اسلام نے مرد اور عورت میں اسلامی حدود ( حدالزنا ۔حدالسرقة ۔حدالقتل۔ حدالقذف  کے علاوہ  میں برابری  ہی کی ۔
چوری کی سزا میں اللہ تعالی نے فرمایا
(وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ  فَاقْطَعُوْااَیْدِیَھُمَاجَزَآئً م بِمَاکَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ عَزِیْز” حَکِیْم”)
ترجمہ(اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا ہاتھ کاٹو ان کے کیے کا بدلی اللہ کی طرف سے سزا اور اللہ غالب حکمت والا ہے)(سورة المائدة ٣٨) ان حدود اک قیام امیر و غریب  دونوں پر برابر کیا جائے گا جیسا کہ نبی کریم ۖ کے دور میں  جب  اشراف قریش میں سے ایک عورت نے چوری کی اور اس پر اس حد کو نافذ کیا گیا تھا ۔
زنا کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا

(اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ص  وَّلَا  تَاْخُذْکُمْ  بِھِمَا  رَاْفَة”   فِیْ دِیْنِ  اللّٰہِ  اِنْ  کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰہِ  وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج  وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَة” مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ)
ترجمہ (اور جو عورت بد کار ہو اور جو مرد تو ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤاور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اور اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاظر ہو )(سورة النور ٢)اور اللہ تعالی نے فرمایا ( وَ حُرِّمَ   ذٰلِکَ   عَلَی الْمُؤْمِنِیْن)ترجمہ(اور یہ کام حرام کیا گیا ہے )(سورة النور ٣)مگر شادی شدہ پر زنا کی حد یہاں تک کہ مر جائے اور غیر شادی شدہ پر اس کی حد سو کوڑے ہیں چاہے مرد ہو یا عورت  اور قذف کی سزابغیر گواہوں کے  اسی کوڑے ہیں اور اس کی کوئی گواہی بھی قبول نہیں کی جائے گی اور وہ دنیا و آخرت میں لعنتی ٹھہرے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجیدمیں فرمایا۔

(وَالَّذِیْنَ  یَرْمُوْنَ  الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّلَاتَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَةً اَبَدًا ج وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْن)
ترجمہ (اور جو پارسا عورتوں کو الزام لگائین اور معائنہ کے چار گواہ نہ لائیںتو انہیں اسی کوڑے لگاؤاور ان کی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں )(سورة النور  ٤)
یہ حدیث افک پر رد تھا جس میں سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر تہمت کائی لگائی تھی اور متہمین پر یہ حد نافذ بھی کی گئی اور یہ خاندان اور اجتماعی زندگی کی حفاظت کے لیے تھا اور ان کی سرکوبی کی کئی جو پاکدامن اور شریف عورتوں پرزنا کاری کا  الزام لگاتے ہیں۔
قتل اور قصاص کی حد کے لیے اللہ تعالی نے فرمایا

Murdar

Murdar

(ٰیاَیُّھَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ  فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ  بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی  )
ترجمہ(آئے ایمان والو تم پر فرض ہے جو ناحق مارے جائیںان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت)(سورة البقرة  ١٧٨)اور اس میں فقہاء کرام کا جماع ہے کہ دونوں کی حد برابر ہے ۔
میراث میں عورت کا حق :
اسلام سے پہلے عورت کے لیے میراث تو دور کی بات عورت کو وراثت کے طور پر بانٹی جاتی تھی مگر اسلام نے ایک معین قدر عورت کے لیے مقرر کردی ہے اور اسی طرح اسلام نے والد کی بیویوں کو بھی اولاد کے میراث ہونے کو باطل قرار دے دیا اللہ تعالی نے فرمایا

(وَلَا تَنْکِحُوْا مَا  نَکَحَ  اٰبَآؤُکُمْ  مِّنَ النِّسَآئِ  اِلَّا مَا قَدْ  سَلَفَ ط اِنَّہ کَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا ط وَسَآئَ سَبِیْلا)
ترجمہ(اور اپنے باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو مگر جو ہو گرا وہ بے شک بے حیائی اور غضب کا کام ہے اور بری راہ ہے) (سورة النساء ٢٢)اور دوسری جگہ پر فرمایا (لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُواالنِّسَآئَ کَرْھًا )(سورة النساء  ١٩)مگر عورت کی میراث کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا
( لِلرِّجَالِ نَصِیْب” مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ  وَالْاَقْرَبُوْنَ ص وَلِلنِّسَآئِ  نَصِیْب”  مِّمَّا  تَرَکَ الْوَالِدٰنِ  وَ الْاَقْرَبُوْنَ  مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ ط نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا   )
ترجمہ (مردوں کے لیے حصہ ہے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا )(سورة النساء  ٧) جیسا کی اللہ تعالی نے دوسرے مقام پر فرمایا

(یُوْصِیْکُمُ  اللّٰہُ  فِیْ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ )
ترجمہ(اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے )(سورة النساء ١١)اور اس لیے کیونکہ اللہ تعالی نے مرد کو بیوی پر افسر بنایا ہے جو اس پر خرچ کرتا ہے چاہے عورت کے پاس اپنی مستقل مالی حیثیت ہی کیوں نہ ہو جیسے وہ اپنی مان ،بہن پر خرچ کرتا ہے اور اسی طرح اس کی ماں ،دادی ،نانی ،بہن اور بیوی  اس کی کی میراث میں سے جیسا کہ سورة النساء میں آیا ہے اپنا حصہ وصول کرتی ہیںدیکھیں (سورةالنساء آیات نمبرز ١١،١٢،٣١ )اور اسی طرح اسلام نے مسلمان عورت کی عزت واحترام کو انسان کے طور پر واپس کیا ۔
اسی طرح اسلام نے عورت کو اپنا مال رکھنے کی مکمل آزادی دی جیسے کوئی نوکری کرنا اور کاروبار کرنا کی اجازت دی ہے اور جیساکہ اپنا کاروبار کرنے اور اس کی مکمل دیکھ بھال کی بھی اجازت دی ہے اور اسی اسی طرح اسے یہ بھی اختیار دیا گیا کہ وہ اگر چاہے تو اپنے کاروبار میں وکیل بھی کر سکتی ہے جو اس کے کاروبار کی دیکھ بھال کرے ان سب سے مسلمان عورت اپنی مکمل آزادی کو انجوائے کر رہی تھی جب آج کے نام نہاد مغربی دنیا والے جو آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اسلام عورت کو چودہ سو سال پہلے ہی دے چکا ہے ۔
عورت اور شادی :
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا

(ٰیاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ  خَلَقَکُمْ  مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ  وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا)

ترجمہ(آئے لوگو اپنے رب سے ڈرو  جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا )(سورة النساء  ١)اسلام نے عورت کو شادی میں اقرار یا انکار کا مکمل حق دیا گیا ہے اور غیرشادی شدہ لڑکی کا سکوت ہی اس کی رضامندی پر دلالت کرتا ہے مگر بیوہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ زبان سے انکار یا اقرار کرے حدیث شریف میں سیدنا ابی ہریرہ  سے روایت ہے کہ (لاتنکح الایم حتی تستا مر  ولا تنکح البکر  حتی تستاذن قال یا رسول اللہ وکیف اذنھا ؟قال ان تسکت اما اذا رفضت البکر الزواج فلاترغم علیہ )اور اسی طرح آقا علیہ الصلاة والسلام نے خنساء  بنت خذام انصاریہ  کے نکاح کو ختم فرما دیا۔

جب اس نے کہا یارسول اللہ میرے والد نے میرا نکاح کردیا ہے اور میں اسے پسند نہیں کرتی کیونکہ پہلے وہ بیوہ تھیں ۔شادی کے پرگرام کے لیے ضروری ہے کہ اعلانیہ طور پر ہو دف اور آواز اور ولیمہ کے ساتھ اور حق مہر میں عورت کااپنے شوہر کے ساتھاتفاق ہونا چاہیے اور یہ مسلمان عورت کی تکریم کے لیے ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی میںپیار و محبت اور احترام ہونا چاہیے۔

پس عورت اپنے شوہر کے لیے ایک گھر ہے جس میں وہ اپنے دن کے کام کاج کے بعد آرام اور زندگی کی تکالیف سے تھک کر سکون کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اس گھر کی ذمہ داری اور اس کی حفاظت بھی کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم  میں ارشاد فرمایا

( وَمِنْ اٰیٰتِہ   اَنْ خَلَقَ  لَکُمْ  مِّنْ  اَنْفُسِکُمْ  اَزْوَاجًا  لِّتَسْکُنُوْا  اِلَیْھَا  وَجَعَلَ   بَیْنَکُمْ  مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً )

ترجمہ(اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤاور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی )(سورہ الروم  ٢١)جیسا کہ اللہ تعالی نے مرد کو اپنی بیوی سے اچھا سوک  کرنے کا حکم دیا ہے۔

(  وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ  ج  فَاِنْ  کَرِھْتُمُوْھُنَّ  فَعَسٰی  اَنْ  تَکْرَھُوْا  شَیْئًا  وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ  فِیْہِ  خَیْرًا کَثِیْرًا)

ترجمہ(اور ان سے اچھا برتاؤ کروپھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے )(سورة النساء  ١٩)۔

Muslims Sun

Muslims Sun

میاں بیوی پر اولاد کی تربیت اور ان کی حفاظت اور ان کو تہذیب و تمدن اور ان کی تعلیم کی بہت ہڑی ذمہ داری عائد ہوتی اور عورت پر ضروری ہے وہ صالحات میں سے ہو جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرمایا (فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰت” حٰفِظٰت” لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہ )ترجمہ(تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے ھفاظت رکھتی ہیں)(سورة النساء ٣٤)لازمی ہے کہ عورت بھی اپنی عزت کی اور مال کی اور شوہر اور اولاد اور مجتمع کی حفاظت کرنے والی ہو اور شوہر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی اپنی بیوی کو وہ حق دے جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اللہ تعالی نے فرمایا۔

( وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ  عَلَیْھِنَّ  بِالْمَعْرُوْفِ ص وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ  دَرَجَة” ط وَ اللّٰہُ  عَزِیْز”  حَکِیْم”)
ترجمہ(اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیساان پر ہیشرع کے موافق اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے )(سورة البقرة  ٢٢٨)۔تفسیر ابن کثیر میں حضرت معاویہ بن حیدہ القشیری اپنے والد سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں یارسول اللہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے ؟آپ نے فرمایا اس کو کھانا کھلاو جب تم کھانا کھاو اور ان کو کپڑے پہناو جب تم پہنو اور ان کے چہرے پر نہ مارو اور اس سے نفرت نہ کرو اور اس کی توہین نہ کرو مگر گھر میں۔

ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھاکا صلح حدیبیة میں بہت بڑا کردار رہا ہے جب مسلمان کعبہ کے سامنے تھے مگر وہ صلح حدیبیہ کے تحت عمرہ ادا نہیں کر سکتے تھے مگر اگلے سال ادا کر سکتے تھے مگر مسلمانوں نے احرام کھولنے سے منع کردیا تھااس وقت سیدہ ام المومنین نے آپ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ قربانی کر لیں اور حلق کرالیں اور احرام کھول دیں تاکہ مسلمان آپ کی اتباع کرتے ہوئے عمل کریں اور ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں نے آپ کی اتباع کرتے ہوئے عمل کیا اور اس یوں یہ مشکل حل ہو گئی آپ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم ام المونین سے مسلمانوں کے بارے میں مشورہ فرمایا کرتے تھے اور اسی طرح اسلامکے ابتدائی دور میں سیدہ ام المونین خدیجہ  رضی اللہ عنھا کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
دینی اور سیاسی بیعت کا حق:
اسلام نے ہر انسان کو عقیدہ اور عبادت میں آزادی دی ہے اسی طرح عورت کو بھی یہ آازدیاں دی ہیں چاہے وہ اسلام کو قبول کرے یا چاہے تو اپنے دین سماوی(یہودی یا عیسائی) پر قائم رہے اور ویسی ہی سیاسی آزادی بھی اسے حاصل ہے جیسا کہ رسواللہ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے(بغیر مصافحہ) بیعت کی تھی کیونکہ آپ جہاں رسول و نبی تھے وہیں حاکم الوقت بھی تھے یہ سب آازدیا اسلام نے عورتوں کو اس وقت دی ہیں جب عورتوں کو کوئی کم سے کم درجے کا احترام دینے کے لیے بھی راضی نہیں  اللہ تعالی نے فرمایا

(یاَ یُّھَا  النَّبِیُّ  اِذَا  جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ   یُبَایِعْنَکَ عَلٰی اَنْ  لَّا  یُشْرِکْنَ  بِاللّٰہِ   شَیْئًا  وَّلَا یَسْرِقْنَ  وَلَا یَزْنِیْنَ  وَلَا  یَقْتُلْنَ  اَوْلَادَھُنَّ   وَلَا یَاْتِیْنَ  بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہ  بَیْنَ  اَیْدِیْھِنَّ  وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ  وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَ ط اِنَّ  اللّٰہَ  غَفُوْر”  رَّحِیْم”  )(سورة
الممتحنة  ١٢)ترجمہ(ائے نبی جب تمہارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اللہ کا شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیانیعنی موضع ولادت میں اٹھائیں اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہوبے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تحریر :  محمد اسلم رضا الازہری