پردہ چاک

Drug

Drug

جیسے ہم ملک و قوم کی جڑوں کو گھُن کی طرح چاٹنے والی منشیات کی مختلف اقسام چونا ،کتھہ ،پان ،گُٹکہ ،نسوار،سیگریٹ ، شیشہ،بھنگ ،افیون ،چرس ،پوڈر ،حشیش ،شراب ودیگر نشہ آور میڈیسن کے ناموں سے واقف ہیں ویسے ہی جو لوگ اِنہیں استعمال کرتے ہیں اُن پر نمودار ہونے والے اثرات بھی ہم نے دیکھے ہی ہونگے۔

نشئی لوگ نشہ کرنے کے بعد لڑکھڑانے لگتے ہیں،ہوش حواس کھو بیٹھتے ہیں یا پھرگالی گلوچ کرتے ہیں آخر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اِسی طرح زندگی کا ایک مخصوص میں انسان کو اپنے گرم خون کا نشہ ہوتا ہے جس میں چور انسان کے اندر اپنے جذبات وخیالات کی تکمیل کیلئے ہر چٹان سے ٹکرانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اگر اسے اچھی سوسائیٹی مل جائے تو اس کی زندگی و آخرت سنور جاتی ہے ورنہ یہ خود کو تباہ کر بیٹھتا ہے جبکہ کچھ لوگ عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ سنوربھی جاتے ہیں اور پھر انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگتا ہے یہ نشہ ہر ایک مرد و عورت پر زندگی میں ایک بارہی سوار ہوتا ہے۔

دولت کا نشہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جو ہر ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ جسے خدا چاہے عطا کرتا ہے پھروہ خرچ کرنا بھی بھول جاتا ہے کہ اسے کہاں اور کیسے خرچ کرے اکثر دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ اسی ہی سوچ کے سبب دولت مند وں کو رات رات بھر نیند نہیں آتی جس کیلئے وہ خواب آور ادوایات استعمال کرتے ہیں۔

کچھ لوگ اس سوچ میں نہیں سوتے پاتے کہ شام کو تو پیٹ بھر لیا مگر صبح کہاں سے ملے گی جس کا وہ کام کریں گے نہ جانے وہ اجرت دے گا بھی یا نہیں؟ مگراقتدار اور اختیار کا ایک ایسا نشہ ہے جو جسے چڑھ جائے وہ بظاہر تو بڑا صاف ستھرا اور عوامی خادم لگتا ہے مگر حقیقت میں بوڑھا بھی جوان ہو جاتا ہے اور انسان سے درندہ بن جاتا ہے پھر اس کی خوراک لوگوں کا خون پینا اور کام بے بسوں پر ظلم ڈھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور رہنے سہنے کے طریقے کچھ ایسے ہو جاتے ہیںکہ اسے دن کی خبر ہوتی ہے نہ رات کی، یہاں تک کہ جن لوگوں کی وجہ سے اسے اقتدار یا اختیار ملتا ہے یہ اُن کو بھی نہیں بخشتا ، جھوٹے مقدمات بنانا۔

Money

Money

اپنے ڈیروں پر منتھلیاں منگوانا ،چوری ڈکیتی کی وارداتیں کروانا ،محنت کشوں کو سرِ عام جوتے مروانا ،اُن کی عزتیں تار تار کروانا شرفاء کا حق دبانا ،شراب نوشی اور زناء کرنا اپنا حق وفیشن سمجھتا ہے ، کہیں تو یہ بھی دیکھنے میں آتاہے کہ کسی سے مخاطب ہوتے وقت بھی باولے کتے کی طرح کاٹنا شروع کر دیتا ہے جس پر اگر کوئی پتھر کا جواب اینٹ سے دینے کی کوشش کرے تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اُسے خاموش کرا کے فخر محسوس کرتا ہے اس ایک جان جانے سے جتنے چاہے لاوارث ہو جائیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ قانون بنانا جلانا یا توڑنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اسی ہی لئے قانون کے رکھوالے ان کے ڈیروں کے پالتو کتے بن جاتے ہیں اور جب یہ گھر جائیں تو اقتدار میں آنے سے پہلے جو گھر خوشیوں بھرا ہوتا ہے۔

وہی میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے مگر یہ سب دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی نہ کسی کی قلم اُٹھتی ہے نہ ہی کسی کو ان پر بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے قلم اُٹھا کے یا منہ کھول کے کسی نے جان سے جانا ہو تو وہ ایسا کرے اسی ہی لئے ہر کوئی بول دیتا ہے کہ چھوڑو جی یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے۔

جیسا کہ کچھ ہی عرصہ قبل جنوبی پنجاب میں واقع ساہیوال ڈویژن کی قریبی تحصیل کا رہائشی گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے والا ایک جوڑا اپنے علاقہ کے موجودہ بزرگ ا یم این اے کو اپنا محافظ سمجھ کر اس کے پاس آیا کہ ہماری جان کو خطرہ ہے ہمیں تحفظ دیں یا قانون نافظ کرنے والے اداروں سے دلائیں،اُن دنوں خادم اعلیٰ کا طیارہ اترنے اور سستے انصاف کی فراہمی کے چرچے بھی عام تھے مگرخادم کے خاص رانا صاحب نے اِس جوڑے کی کچھ ایسی حفاظت کی کہ لڑکے کو اپنے ڈیرے پر ملازم جبکہ لڑکی کو حوس بجھانے کیلئے کسی تہہ خانہ میںرکھ لیا اس ملازم لڑکے نے کئی یوم تک اپنی بیوی سے ملاقات نہ ہونے کے سبب رانا صاحب سے کہا کہ اب ہم یہاں سے چلتے ہیںجس پر اُس نے کہا کہ آپ نے جانا ہے تو جائیں لڑکی آپ کے ساتھ نہیں جانا چاہتی جس پر لڑکا اس قدر چیخا چلایا کہ شاید بہروں نے بھی سن لیا ہو مگرقوت سماعت رکھنے والوں میں سے کسی کے کان پربھی جوں تک نہ رینگی سب بک گئے اگر یہی حرکت کسی عام آدمی نے کی ہوتی تو اگلے رو زاخبارات کی زینت ہونے کے ساتھ پہلے سلاخوں کے پیچھے بعد میں ایف آئی آر چاک ہوتی۔

ایسا داغ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے جو کبھی نہ مٹ پائے مگر وقت گزنے کے ساتھ ساتھ شواہد ختم اوریہ داغ پھیکا پڑنے لگا جسے شاید اب نمایاں کرنا پڑے اب جاکے جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہے ہیں۔

ویسے ہی ان موسمی سپیروں اور وقت کے فرعونوں کا زہر و نشہ محض معصوم قوم کو کوئی نیا سنہری دکھا کر انتخابی کامیابی کیلئے اُتر رہا ہے اگر کسی کا ابھی تک نہیں اترا تو انشااللہ اگلی خوراک میں اُتارنے کی کوشش تو ضرور کروں گا۔

Muhammad Amjad khan

Muhammad Amjad khan

تحریر : محمد امجد خاں
Mobe:0343 6999818
Email:Pardahchaak@gmail.com
Nic Nombar:36402-6517191-9