آج کل ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کہ لانگ مارچ سے متعلق ہی ہر جگہ بحث جاری ہے کہ جو معاہدہ ہوا کیا وہ آئین کے تحت درست ہے؟۔پرنٹ میڈیا الیکٹرک میڈیا سوشل میڈیا غرضیکہ ہر جگہ یہ ہی بحث جاری ہے کہ حکومت کو معاہدہ کرنا چاہیے تھا کہ نہیں بات کچھ بھی ہو اصل بات تو عوام کی ہے کہ عوام کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کیا کچھ کیا جارہا ہے۔
ایک دلچسپ لطیفہ ان دنوں سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس پر گردش کرہا ہے کہ 15-01-13 کوجناب قادری صاحب نتہائی گرم جوشی سے اعلان کرتے ہیں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا آدھا کام ہوگیا وزیر اعظم سابق ہوگئے ہیں۔سادہ لوح عوام تالیاں اور بھنگڑے شروع۔صرف دو دن بعد مبارک ہو مبارک ہو ہمارا معاہدہ ہوگیا وزیر اعظم صاحب ابھی خود اس پر سائن کریں گے ۔سادہ لوح عوام دوبارہ بھنگڑے اور تالیاں شروع۔
شائد لوگوں کی نظر میں یہ لطیفہ ہومگر مجھے اس لطیفے نے سوچنے پر مجبور کردیا اور سیاست دانوں کی ماضی کی تمام حرکتیں میرے ذہن میں کسی فلم کی طرح چلنے لگیں کہ ہماری عوام بھی کس قدر سادہ لوح ہے ایک عرصہ سے ان سے صرف بھنگڑے اور تالیاں بجوانے کا کام ہی لیا جارہا ہے انہیں سمجھ ہی نہیں لگتی کہ ہر کوئی اِن کے ساتھ ہاتھ کرکے چلتا بنتا ہے اور یہ لوگ ایک کے آنے کی خوشی میں تالیاں بجاتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اُس کے جانے کی خوشی میں بھنگڑے ڈالتے ہیں سو جب تک اِن سیاسی شعبدہ بازوں کو ایسی شاندار عوام کی سہولت حاصل رہے گی صرف بھنگڑے پڑتے رہیں گے اور تالیاں بجتی رہیں گی۔
جب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے لانگ مارچ شروع کیا تو تمام سیاستدانوں میں ایک کھلبلی مچ گئی سب کو اپنی سیاست اور اپنی باریوں کی فکر پڑ گئی اور جو سیاستدان ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے بات کرنا بھی ایک دوسرے سے گوارا نہ کرتے تھے سب نے ایک دوسرے سے رابطے شروع کردئیے اور آپس میں باہمی تعاون اور اتحاد کا یقین دلایا یہ سب اِس لیئے کہ سب کو صرف اور صرف اپنی نشستوں کی فکر تھی اور ملاقاتیں اور اعلامیے جاری ہونے لگے۔
اسمبلیوں سے جمہوریت کی متفقہ قراردادیں پیش ہونے لگیں اس تمام صورتحال کو تالیاں اور بھنگڑے والے عوام بھی دیکھ رہی ہے کہ کیسے یہ سب سیاستدان یک جا ہوگئے کاش اِسادہ لوح عوام کو یہ بات بھی سمجھ آجائے کہ ہمارا ملک بجلی پانی اور گیس کے شدید ترین بحران سے گزررہا ہے یہ سب اِس مسئلے پر کیوں اکٹھے نہیں ہوتے ؟اِن مسائل کو حل کرنے کیلئے کیوں ملاقاتیں نہیں کرتے کیوں متفقہ اعلامیہ اور اسمبلیوں میں قراردادیں پیش نہیں کرتے ؟اگر عوام اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے متحد ہوجائے تو قوی امید ہے کہ یہ سیاستدان عوام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کے قابل ہوجائیں گے۔
Tahir Ul Qadri long march
بات ڈاکٹر صاحب کے لانگ مارچ بھنگڑے اور تالیوں کی ہورہی تھی ابھی چند روز پہلے ڈاکٹر صاحب ایک نجی ٹی وی کے انٹرویو میں فرما رہے تھے کہ میں نے 16 مارچ سے قبل اسمبلی تحلیل کرنے کی بات بھی منوا لی کیونکہ اگر 10 مارچ تو کیا 15 مارچ کو بھی اسمبلیاں تحلیل کی جائیں تو انتحابات 90 روز میں کروائے جاسکتے ہیں اور اگر 16 مارچ کواسمبلیاں تحلیل ہوتی تو آئین کی رُو سے 60 دنوں میں الیکشن منعقد کرواناپڑتے۔
خیر ڈاکٹر صاحب تو یہ سب کہہ گئے مگر چوہدری نثار صاحب کی پریس کانفرنس سننے کا موقع ملا وہ صاحب فرمارہے تھے کہ اسمبلیاں توڑنے کی کُنجی ہمارے پاس ہے جب تک ہم رضامند نہ ہو تو اسمبلیاں قبل اِز وقت تحلیل نہیں کی جاسکتی میں آئین کے بارے میں اِتنی زیادہ سمجھ بوُجھ تو نہیں رکھتا کوئی ماہر آئین ہی اِس بات کا درست جواب دے سکتا ہے۔
مگر میری نظر میں توایک عجیب سی کھچڑی سی پک چکی ہے یا پکا دی گئی ہے تاکہ ابھی وقت گزارا جائے اور جب وقت آئے تو ایک اورمسئلہ جنم لے اور ہنگامہ کھڑا ہو میں نہیں سمجھتا کہ ڈاکٹر صاحب نے جو معاہدہ کیا اُس کی کوئی آئینی حیثیت بھی ہے ۔کیونکہ اگر پنجاب اسمبلی نے ٹائم سے قبل تحلیل ہونے سے انکار کردیا تو پھر کیا ہوگا؟اِ س معاہدہ کا کیا بنے گا؟اور اگرکوئی زبردستی کی گئی اور پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تو پھر کیا ہوگا۔ یہ وہ سولات ہیں جو اِس سارے ماحول کا بغور جائزہ لینے کے بعد ذہن میں اُبھر رہے ہیں اِس لیئے حالات اور آثار کچھ اچھے نظر نہیں آرہے اللہ ہی رحم کرے۔باتیں خواہ جتنی بھی ہو جیسی بھی ہوںلیکن ایک بات تو طے ہے کہ یہ سب لوگ صرف اپنے لیئے اِکٹھے ہوئے ہیں مگر اپنے حقوق کیلئے عوام کو اب خود جدوجہد کرنا پڑے گی اور اِن کے ہاتھوں استعمال ہونا چھوڑ کر اپنا حق ماننا ہوگا وگرنہ ہم لوگ اِسی طرح استعمال ہوتے رہیں گے اور کوئی نیا شعبدہ بازآئے گاسنہرے خواب دکھائے گا اور ہم پھر سے اُس کی باتوں میں آکر بھنگڑے ڈالتے اور تالیاں بجاتے رہ جائے گے۔