طب کو دنیا کا قدیم ترین طریقہ علاج تصور کیا جاتا ہے۔انسان کے روئے زمین پرظہور کے ساتھ ہی طب کا آغاز ہو گیا۔ برصغیر میں طب یونانی کومیڈیکل کی دنیا میں بلند مقام حاصل رہا ہے۔لیکن یہاں دیگر طریقہ ہائے علاج کی نسبت اس میں تحقیق کا خاصا فقدان نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شعبہ طب آہستہ آہستہ روبہ زوال ہونا شروع ہو گیا۔جبکہ ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج نے تحقیق کی بدولت ترقی کی منازل طے کیں۔دیگر طریقہ ہائے علاج کی مقبولیت کے باوجود پاک و ہند کی دو تہائی آبادی ابھی بھی طب کو ہی موزوں ترین خیال کرتی ہے اور اسی سے استفادہ کر رہی ہے۔
اس شعبہ کے زوال کے پیچھے جہاں تحقیق ،نظم و ضبط، پیشہ وارانہ تعلیم اور اطباء کی تربیت کے فقدان جیسے عوامل کارفرما ہیں وہیں حکومتی عدم توجہی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ شعبہ طب پر بے جا پابندیوں سے نہ صرف یہ کہ نئے آنے والے اور اس شعبہ میں تحقیق کے خواہشمندطلباکی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے بلکہ بے روزگاری بھی جنم لے رہی ہے۔ڈرگ ایکٹ کی منظوری و نفاذ شعبہ طب کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ اطباء اس ایکٹ میں موجود جس شق پر سیخ پا نظر آئے وہ یہ ہے کہ ایک میٹرک پاس شخص کو ان پہ انسپکٹر مسلط کر دیا جائے گاجو انسپکشن کے دوران عدم صفائی پر فوری گرفتاری اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کرنے کا مجاز ہو گا۔
میری ذاتی رائے ہے کہ یہ واقعی اطباء سے سوتیلا سلوک ہے اور اس پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔دیر آئے، درست آئے۔لگتا ہے اب حکومت کو اس شعبہ کی اہمیت کا کچھ احساس ہوا ہے اور اس شعبے کے لئے کچھ ایسے اقدامات کر رہی ہے جو صحیح معنوں میں قابل ستائش ہیں۔وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی خصوصی کاوشوں سے شعبہ طب کو ترقی کی منازل طے کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔ چند دن پہلے قومی طبی کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سیالکوٹ میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔تقریب کے میزبان معروف شاعر سلیم اختر ملک تھے جو گاہے بگاہے اپنے اشعار حاضرین کی نذر کرتے رہے۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار طب و الجراحت کے امتحان میں پاکستان بھر میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں میں انعامات اور اسناد تقسیم کی گئیں۔ جہاں 2001سے 2012 تک کے پوزیشن ہولڈرز کی حوصلہ افزائی ہوئی وہیں گزشتہ سالوں کے پوزیشن ہولڈرز میں تشویش بھی دیکھنے کو ملی۔تقریب سے طبی کونسل کے سابق صدراور موجودہ ایڈمنسٹریٹر حکیم رضوان حفیظ ملک نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ تاریخ میں پہلی بار طبی فارما کوپیا تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
انسٹھ ہزار مرد اور ستائیس سو خواتین رجسٹرڈ اطباء خدمات سرانجام دے رہے ہیںجبکہ نئے اطباء کی رجسٹریشن کا کام تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ طبی کونسل کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے جبکہ طب کمپلیکس کے لئے چالیس کنال اراضی بھی منظور کی جا چکی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں فری طبی کیمپس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مریضوں کے مفت معائنے ، علاج اور ادویات کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
Minister Firdous Ashiq Awan
یقیناً ان اقدامات سے شعبہ طب پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ بعد ازاں وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے تقریب سے خطاب کے دوران پوزیشن ہولڈرز کو مبارکباد دی اور اول پوزیشن حاصل کرنے والوں کو ہمدرد، مرحبا اور قرشی کے اداروں میں مفت تحقیق کی سہولت ،وطائف اور بلاسود قرضوںکے اجراء کا اعلان کیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ طبی کونسل کی عمارت کے لئے سی ڈی اے سے بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ اطباء کو جلد خوشخبری سننے کو ملے گی۔ ملک بھر میں موجود چھ سو طبی مراکز صحت میں خالی اسامیوں پر اطباء کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے گا۔
سرکاری ہسپتالوں میں طبی شعبہ ، آزاد کشمیر میں طبی کونسل اور سیالکوٹ میں طبیہ کالج کے قیام کا بھی وعدہ کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وعدوں اور اعلانات کو جلد سے جلدعملی شکل دی جائے تاکہ دیگر بہت سے وعدوں کی طرح یہ وعدے بھی “سیاسی وعدے نہ بن جائیں۔ اگر شعبہ طب سے متعلق قانون سازی کرتے وقت اطباء کے نمائندوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے تو نہ صرف ان کے تحفظات دور کرنے میں مدد ملے گی۔
بلکہ قانون سازی بھی مئوثر انداز میں کی جا سکے گی۔ طب کے فروغ کے لئے میڈیا مہم چلائی جائے تو اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے ان میں تحقیق کا رجحان پیدا ہو گا۔ اگر ہمدرد یونیورسٹی کراچی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرز پر تمام طبیہ کالجوں میں ایمرجنسی اور سرجری کونصاب کا لازمی جزو بنا دیا جائے تو یہ دنیا کا بہترین طریقہ علاج بن سکتا ہے۔