کراچی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہری امام ضامن باندھ کر گھر سے باہر نکلیں۔ یہ تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت نے وسائل نہیں دیے۔ اس لیے پولیس جرائم ختم نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کراچی بد امنی کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سال دو ہزار تین سو افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس پر استفسار کیا کہ اگر لوگوں کی زندگی محفوظ تو نہیں تو بتائیں اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ لگتا ہے کہ انتظامیہ نے طے کر لیا ہے کہ جو ملزم شہریوں کی جان و مال اور عزت کو نقصان پہنچائے گا اس کو نہیں پکڑنا۔ عدالت کے ایک سوال پر پراسکیوٹر جنرل سندھ نے بتایا کہ بائیس ہزار پانچ سو پینتیس اشتہاری اور مفرور ملزم ہیں۔
اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے شہری امام ضامن باندھ کر گھر سے باہر نکلیں اور حکومت اخبار میں اشتہار دے کہ شہری اپنے رسک پر گھر سے باہر نکلیں۔ حکومت سندھ ذمہ دار نہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا سی سی پی او کو پتہ ہو گا کہ کراچی میں کتنے تفتیشی افسر ہیں جس پر اقبال محمود ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ دو سو پچاس تفتیشی افسر ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ یہ تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت نے وسائل نہیں دیے اس لیے پولیس جرائم ختم نہیں کر سکتی۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا آپ کے افسر گھر میں بیٹھ کر ٹارگٹ کلنگ کی اے کلاس رپورٹ بنا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بوری بند لاشیں پولیس موبائل نہیں اٹھاتی بلکہ ایمبولینس یا پرائیوٹ گاڑیاں اٹھاتی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ کہہ دیں کہ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے ہم کنٹرول نہیں کر سکتے۔ نومبر دو ہزار گیارہ میں بدامنی کیس کا آرڈر پاس کیا تھا دو ہزار بارہ گزر گیا اور دو ہزار تیرہ گزر رہا ہے۔