واہ جی واہ سچ کہا ہے فلک کا تھوکا حلق میں گرتا ہے ۔ گذشتہ دنوں جمہوریت کے روحانی پیشوائوں نے جس طرح تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے انقلابی دھرنے کو غیر آئینی ،غیر قانونی اور غیر جمہوری کہتے ہوئے جمہوریت کے منافی قرار دیا تھا ۔آج وہ خود بے مقصد ، بلا جواز دھرنا دے کر اپنا تھوکا چاٹ رہے ہیں ۔ جمہوری حسن کی دلدادہ کمیشنوں کی خواہشمند ن لیگ ، جمہوریت کی پوجا کرنے والے مولوی صاحبان اور انکے چھوٹے موٹے ہمنواؤں نے پارلیمنٹ کے سامنے اور الیکشن کمیشن کے باہر غیر جمہوری رویہ اپنا کر کیا ثابت کر نا چاہا۔؟ ویسے اس پر بھی ایک کمیشن ہونا چاہیئے۔ ن لیگ کی قیادت کا اس دھرنے کے دوران راہِ فرار اختیار کرنے کا کیا مقصد تھا اس پر بھی کمیشن ہونا چاہیئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قادری صاحب کے دھرنے کو ناکام کہنے والے اب ن لیگ کے اس دھرنے کو کیا نام دیتے ہیں! اپنے ہی منتخب کئے اپنے ہی ہاتھوں سے تشکیل دیئے الیکشن کمیشن کے اوپر غیرمتزلزل اعتماد کی بنیاد پر اسے بلیک میل کر کے اپنے اشاروں پر نچانے کا سامان کیا جا رہا ہے۔
ان نام نہاد جمہوریت پسندوں سے پوچھا جائے کہ یہ کس طرح جمہوریت کا تحفظ کیا جارہا ہے اور یہ کس طرح کی جمہوریت ہے جہاں ممبر آف پارلیمنٹ ہوتے ہوئے بھی اپنی نشست ایونوں سے باہر لگائے نظر آرہے ہیں جو بعد میں اپنی شکست کے ڈر سے عوام کو ہمیشہ کی طرح تنہاء سڑکوں پر چھوڑ جاتے ہیں اور پیچھے پلٹ کر دیکھنا تک گوارہ نہیںکرتے۔عوام کو اب تو سمجھ جانا چاہیئے ان نام نہاد جمہوری حسن پرستوں کو اور باز رہنا چاہیئے بار بار جمہوریت کے نام پر لوٹنے والوں سے جو 65 سالوں سے غریب عوام کا سکھ چین لوٹتے آرہے ہیں۔ اقتدار کی رسا کشی میں مصروف سیاستدانوں نے قبضہ مافیا کی طرح اس ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ اپنی حاکمیت ،اپنی سالمیت، اور اپنی بقاء کی جنگ کو جہوریت کی جنگ بتانے والوں نے قوم کی حاکمیت ، ملک کی سالمیت، دونوں کی بقاء کو خطرات لاحق کردیئے ہیں۔
Pakistani Politicians
فوجی ڈکٹیٹرروں کا رونا رونے والے یہ سیاست دان خود65 سالوں سے جمہوریت کے نام پہ غریب عوام پر سوِل ڈکٹیٹر کے روپ میں مسلط رہے ہیں۔ جنھیں نہ کبھی عوام کی پرواہ رہی نہ ملک کی اور قارئین سچ پوچھیں تو یہ پرواہ ہو بھی کس طرح ،یہ احساس جنم بھی لے تو کس طرح ، ضمیر جاگے بھی تو کس طرح ، نااہل غیر تعلیم یافتہ لوگوں کا مجموعہ جو سیاسی طور پر تو شعور رکھتا ہے لیکن سمجھ بوجھ سے قاصر یہ ٹولہ عملی طور پر لاشعور ہے ایک میڑک پاس جو کسی ادارے میں ڈسپیج کلرک لگنے کا اہل نہیں وہ انھی ادروں میں وزیر مشیر بن کر ادارے تباہ کرتا پھر رہا ہے۔ آج بھی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کی دلدل میں غرق یہ سیاستدان دھاندلی کی مکروہ چادر اوڑھے پاکستان میں شفاف انتخابات کے نام پر اپنے آپ کو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
ہمارے محترم چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان شفاف انتخابات کے دعوے تو خوب کر رہے ہیں لیکن یہ انھیں کون بتائے کہ جب تک ان سیاستدانوں کے ذہنوں میں شفافیت جنم نہیں لے لیتی آنے والے انتخابات میں شفافیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جب پانی کے پیالے میں گندگی ہو تو شفاف پانی کا مقصدفوت ہوجاتا ہے۔صاف پانی کی افادیت کے لئے برتن کا صاف ہونا ضروری ہے۔آخر میںایک بار پھر ہم یہ جاننا چاہیںگے قادری صاحب کے دھرنے کو ناکام کہنے والے اب ن لیگ کے اس دھرنے کو کیا نام دیتے ہیں۔