گزشتہ سے پیوستہ )اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے ہمیشہ رسول ِ رحمت صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ سیرت طیبہ کو رول ماڈل بنا یا ہے اور اُسی کے مطابق نظام ِ حکومت کو چلا یا ہے اور آپ ایک فرض شناس ، خادم قوم اور قانون کی پا بندی کرنے والے حکمران کے طور پر معروف تھے۔
اگر ہمارے حکمران صرف حضرت ابو بکر صدیق کے دور ِ حکومت ہی کو رول ماڈل بنا لیں تو پا کستان تمام تر معاشی ، سیاسی ، اقتصادی ، داخلی اور خارجی مشکلات سے نجات پا سکتا ہے اور عوام بھی خو ش حالی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے حکمران خلفاء راشدین کی سیرت طیبہ سے کو سوں دور ہیں اور نافذ کرنا تو کُجا انہوں نے تو کبھی یہ زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ ہم خلفاء راشدین خصوصاََ حضرت ابو بکر صدیق کے صرف ایک طرز عمل کو اپنی نظام حکو مت کا حصہ بنا لیں تو ہماری غریب عوام سُکھ کا سانس لے سکتی ہے ۔
کہ جب حضرت ابو بکر صدیق کا وصال ہوا تو حضرت عمر فاروق نے نظام ِ خلافت سنبھا لا تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق با قاعدگی کے ساتھ فلاں علاقہ میں ایک غریب بوڑھی عورت کواپنے ہا تھوں سے کھانا کھلا یا کرتے تھے توحضرت عمر فاروق نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور جب آپ پہلے دن اُس نا بینابوڑھی عورت کو کھانا کھلانے لگے اور آپ نے روٹی کا لقمہ توڑ کر اُس کے منہ میں ڈالا تو اُس بوڑھی نا بینا عورت کی چیخ نکل گئی اور وہ عورت رونے لگی اور کہا کہ لگتا ہے۔
کہ امیر المومنین (حضرت ابو بکر صدیق )اس دنیا میں نہیں رہے کیونکہ جب وہ روٹی کا لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے تو منہ میں ڈالنے سے پہلے وہ اس کو اچھی طرح چبا کر میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے کیونکہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اور وہ مجھے چبا چبا کر کھلاتے تھے آج کیونکہ آپ نے سالم لقمہ میرے منہ میں ڈالا ہے تو میں نے محسوس کیا ہے کہ آج مجھے کھا نا کھلانے والا کوئی اور ہے۔
کاش ہمارے حکمران بھی ایسی عادتوں کے خوگر اور عادی ہو جائیں تو ملک میں کوئی غریب بھو کا اور غربت باقی نہ رہے ،مگر پاکستانی سیاست کا دستور کچھ وکھری ٹائپ کا ہے وہی لوگ جو الیکشن سے پہلے ایک وی وی آئی کا پروٹول رکھتے ہیں اور اُن کے تمام ناز نخرے امیدواران پہلی رات کی دلہن کی طرح برداشت کرتے ہیں اور اُن کی ہر خوشی غمی شیئر کرنا وہ اپنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہیںایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہی اُن کے تمام تر ضابطے ، قوانین ، اصول اور نعرے تبدیل ہو جاتے ہیں۔
Poor Mens
غریب عوام کے منہ میں لقمہ دینا تو کُجا اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اُن کے منہ سے روٹی کے لقمے زبر دستی چھینے جا رہے ہیں اور ان کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکز یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا قانون اور جمہوریت تو پہلے ہی دستیاب نہیں تھی اب پٹرول بھی نایاب ، اشیاء ضروریہ کم یاب ، بجلی عدمِ دستیاب، ایسے مشکل ترین حالات میں غریب عوام کہاں جائے۔ ہمارے راہنمایان ِ قوم نے قوم سے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ اب ان کی کسی سچی بات پر بھی یقین کرنے کو دل نہیں کرتا باب العلم ، صاحب نہج البلاغہ ، حامل ذو الفقار حضرت علی کرم اللہ وجہ الریم سے کسی نے پوچھا آخر جھوٹ بولنے سے کیا نقصان ہو تا ہے حالانکہ جھوٹا آدمی ہر طرف سے فائدہ ہی اُٹھاتا ہے اور جھوٹ موٹ بول کر اِدھر اُدھر سے نفع سمیٹ لیتا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا ایسا چند دن ہو تا ہے اس کے بعد جھوٹ بولنے والے کو سب سے بڑا نقصان یہ ہو تا ہے۔
کہ اس کی سچی بات کا اعتبار اور اعتماد ختم ہو جاتا ہے ”مگر بد قسمتی یہ ہے کہ قوم کا حافظہ بھی بہت ہی کمزور ہے بلکہ اب تو روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ویسے ہی عوام کی” مت ”مار دی ہے اگر عوام اپنے حافظے پہ ذرا سا بھی زور دے اور تصور میں لائے کہ جناب میاں نواز شریف نے بارہا مرتبہ اپنی پریس کانفرنسز اور اجتماعات میں یہ اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم لیگ چھوڑ کے چلے گئے ہیں۔
ہم ان بھگوڑوں کوکسی صورت واپس نہیں لیں گے مگر اب وہی لوگ جن کو عرف ِ عام میں لوٹا کہتے ہیں اِن لوٹے ، لُٹیروں اور فصلی بٹیروں کو میاں صاحب نے اپنے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے سینے سے لگا یا ہوا ہے ، کہاں گیا ضابطہ ، قانون اور اصول پرستی کا وہ پیمانہ جس کی بنیاد پرعوام سے ووٹ لیے جاتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ سیاست کا کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہی ہے جس کے بل بوتے پر سیاست کی جاتی ہے کل جس کو ہمارے حکمرانوں کی طرف سے قاتل لیگ کا طعنہ دیا جاتا تھا آج وہی قاتل لیگ قابل لیگ بنی ہوئی ہے تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں تو سب کچھ یاد ہے ناں کوٹھوں پر جس طرح ہر رات بستر بدلتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر ہمارے سیاستدانوں کے اصول اور قاعدے بدلتے ہیں بلکہ اب تو پارٹیاں اور وفا داریاں بدلتے بھی دیر نہیں لگتی۔
ایوان ِ اقتدار میں کھنکتی ڈالروںاور سکوں کی ذرا سی جھنکار سے ہمارے راہنمایان ِ قوم ” کے دل بھی دھڑکنا شروع کر دیتے ہیں اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنا شروع کر دیتے ہیں کہ کب اس جھنکار کی مسحور کن آواز سے براہ راست لطف اندوز ہوا جائے بس ایک میٹنگ ہوئی اور فوراََ بعد پریس کانفرنس کھڑکائی جاتی ہے کہ ” ہم نے اصولوں کے فروغ اور عوام کی خدمت کے لیے فلاں لیگ یا پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے ہماری سیاست کا رویہ تشد آمیز اور ہنگامہ خیز ہے ، ہمارے مذہبی رویوں میں آتشیںاور زلزلہ آفریں جراثیم پائے جاتے ہیں۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک اپنی سیاست میں استقلال ، مذہب میں استدلال اور سو سائٹی میں اعتدال پیدا نہیں کر سکے ہمارے سیاسی اکابرین کی اگر فہرست پیش کی جائے کہ جنہوں نے قیام ِ پاکستان کی جدو جہد میں عملاََ حصہ لیا تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایسے اُجلے اور نکھرے کردار کے لوگ بھی پاکستان کی سرزمین پر موجود تھے ؟ ان لوگوں کو بلا شبہ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک کہا جا سکتا ہے ، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری سیاسی قیادتیں دماغ ، فکر ، کردار ، اوریجنیلٹی ، بیدار مغزی اور کشادہ نگہی سے یکسر کیوں محروم ہیں۔
Asif Zardari
راہنمایان ِ قوم ” اپنا سارا زور اور توانائی دولت ، عصبیت ، طاقت ، جہالت ، خوشامد ، ذاتی وفاداری اور بونے پن پر کیوں صرف کر رہے ہیں ؟برملا کہا جا سکتا ہے کہ سرزمین پاک نہ تو فکری لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر بنجر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے میں ایسے ایسے خزانے چھپا دیے ہیں اگر اُن کو صحیح جگہوں پر استعمال کیا جائے تو آج دنیا ہماری دہلیز کی محتاج ہو اور کاسہ لے کر ہمارے دروازے پر کھڑی اپنی سانسوں کو باقی رکھنے کے لیے بھیک مانگ رہی ہو ،مجھے اس موقع پر آبروئے صحافت جناب ِ مجید نظامی کی وہ بات شدت سے یاد آرہی ہے جو آپ نے کئی سال پہلے ”پاکستان تھنکرز فورم ” کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ ”اسلام آباد میں امریکی سفیر مسٹر مونجو کا پاکستان میں مقام بر طانوی عہد کے وائسرائے سے کم نہیں ، آج دنیا ”گلوبل ویلیج ہے۔
تو امریکہ اس کا چو ہدری !وہ جاپان ، فرانس ، بر طانیہ اور جرمنی تک پر اپنی چوہدراہٹ چلانا چاہتا ہے تو پاکستان کس باغ کی مولی ہے ، اپنی حفاظت اور اپنی فوج کی مضبوطی کے لیے ہم نے لیاقت علی خان کے دور سے چکر لگانے شروع کیے مرحوم آصف نواز بھی امریکہ گئے ، جنرل وحید بھی چکر لگا آئے ، ہم اتنے اہتمام کے ساتھ حج اور عمرہ کرنے کے لیے نہیں جاتے جتنے اہتمام کے ساتھ واشنگٹن جاتے ہیں ، ہم یا تو اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ امریکہ ہی ہمارا ملجیٰ و ماویٰ ہے یا پھر خود میں قوت بازو پیدا کریں اپنی عزت ، خودداری اور آزادی و خو د مختاری کی حفاظت کریں ”یہ خطبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔
کہ ہم نے سیاست کو تجارت بنادیا ہے اور ہم نے امریکہ کی غلامی کو کائنات کی عظیم ترین متاع تصور کر لیا ہے اس کا واضع ثبوت آج بھی آپ کو نظر آئے گا کہ کس طریقے سے ہمارے ”با اختیار ” حکمران امریکی سفیر کے سامنے دست بستہ نظر آتے ہیں اور معمولی درجے کے سفیر کو وہ پروٹوکول دیا جاتا ہے جو خود اُنہیں اس ”نا ہنجار ” سفیر کے ملک میں بطور چیف ایگزیکٹو نصیب نہیں ہوتا اور جس طریقے سے ہماری ایئر پورٹ پر لائنوں میں لگ کر ”عزت افزائی ” ہو تی ہے ساری دنیا اس انوکھے ”اعزاز ” کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کرتی ہے ہمارے اسلاف اور حقیقی غریب پرور حکمران عوام کو جوابدہ ہوتے تھے مگر آج کے حکمران امریکہ کو جوابدہ ہیں۔