سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کراچی جل رہا ہے اور کسی کو پروا نہیں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ ہم وفاقی حکومت سے کسی حل کی توقع نہ رکھیں۔ بد امنی کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ چار سو پولیس افسر جرائم میں ملوث ہیں۔
سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں جسٹس جواد ایس خواجہ کی زیر صدارت چار رکنی لارجر بینچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے سوال کیا کہ پولیس نے گواہوں کے تحفظ کیلئے کیا کیا۔
آئی جی سندھ کے وکیل شاہ خاور نے بینچ کو بتایا کہ گواہوں کے تحفط کے لئے ایک کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ایک ٹی وی رپورٹر کیقتل کے تمام گواہوں کو قتل کردیا گیا آپ نے کیا کیا۔ عوام کو پولیس پر اعتماد نہیں رہا کیونکہ پولیس خود کو سیاست سے پاک کرنے کو تیار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ پولیس والوں کو نہیں بچا سکتے گواہوں کو کیا تحفظ دیں گے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے آئی جی سندھ سے کہا کہ شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے خون کے چھینٹے بھی آپ پر ہیں۔آئی جی سندھ نے بتایا کہ 127 پولیس اہلکار شہید ہوئے، 35 اہلکاروں کے قتل کے ملزموں کا پتا چلایا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 14 لاکھ تارکین وطن شہر میں گھوم رہے ہیں ۔ آپ بتائیں کتنے تارکین وطن کو پابند کیا اور کتنے ڈی پورٹ کیے ۔عدالت میں سندھ ہائی کورٹ کی ایم آئی ٹی رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ چار سو پولیس افسر سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ یہ پولیس افسر کہاں تعینات ہیں انہیں علم نہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ رینجرز امن و امان کو کنٹرول کر رہی ہے جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ اگر سب کنٹرول میں ہوتا تو ہم یہاں کیوں بیٹھتے۔ انہوں نے آپ کو معاملات کا علم ہی نہیں۔
آپ کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ وفاقی حکومت کو کراچی سے کتنی دلچسپی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم وفاقی حکومت سے کسی حل کی توقع نہ رکھیں۔