ہمارے محلے میں بہت پہلے راشد منہاس نے پرچی سسٹم کو لوگوں میں چلایا۔ ایک عدد ٹی وی رکھ دیا جاتا جس کی مالیت تین ہزار تک ہوتی اور اس کے اوپر پرچی ڈالی جاتی ایک پرچی کی قیمت سو روپیہ ہوتی ،راشد کم از کم پچاس پرچیاں فروخت کرتا یعنی پرچی کے حساب سے اس کے پاس پانچ ہزار روپے جمع ہوجاتے لیکن ٹی وی کی قیمت خرید ہوتی تین ہزار ، یعنی راشد کو ہرٹی وی پر دو ہزار کم ازکم بچ جاتے۔ صبح سے پرچی فروخت ہونا شروع کرتے جو شام پانچ بجے تک فروخت کرنے کے بعد قرعہ اندازی کردی جاتی جس کا نام نکلتا وہ صرف سو روپے میں تین ہزار مالیت کا ٹی وی لے کرخوش ہو جاتا اور اپنی قسمت پر ناز کرتا۔ پچاس پرچی خریدنے والے بھی غصہ نہ کرتے کیونکہ لگائے جو صرف سو روپے تھے۔ کچھ عرصہ یہ کام چلتا رہا پھر ایک دن پولیس حرکت میں آگئی اور راشد کو جوا کروانے کے الزام میں اور چند اور لوگوں کو جوا کھیلنے کے الزام میں پکڑ کرلے گئے ۔ان سب پر جوئے کا پرچہ کاٹا گیا ،مقدمہ چلا ،سزا ہوئی۔
ابھی ورلڈکپ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔ورلڈکپ کے دوران خصوصا اور آج کل بھی اخبارات اور چینلز پر خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں مقام پر میچ پر جوا لگانے والا گرو گرفتار کر لیا گیا۔ بھاری مقدر میں کرنسی ، موبائل۔ کمپیوٹر قبضے میں لے لیے۔ میچ پر جوا لگانے والے بہت ہیں اب چھوٹے سے علاقے سے لے کر بڑے علاقے تک میں میچ پر جوا کھیلا جانے لگا ہے۔ قانون حرکت میں آتا ہے۔ جواریوں کو پکڑتا ہے ،سزا بھی ہوتی ہے لیکن یہ کام کم ہونے کی بانسبت زیادہ ہورہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں اکژیت ان ممالک کی ہے جہاں پر جوئے اور لاٹری سسٹم کو قانونی حثیت حاصل ہوچکی ہے اور جن ممالک میں ابھی یہ جرم ہے وہاں پر بھی اب یہ کسی نہ کسی صورت میں ہونے لگی ہے ۔پاکستان میں جوا ،لاٹری سسٹم ،پرچی سسٹم قانوناًجرم ہے ۔ لیکن اب یہاں پر بھی یہ تمام سسٹم اس انداز میں کھیلے جا رہے ہیں کہ کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ جوا کھیل رہا ہے یا کچھ اور کر رہا ہے۔
ابھی میرے موبائل پر ایک میسچ آیا ،دیکھاتو لکھا تھا کہ معزز صارف ٹویوٹا کرولا 20 انعامات بذریعہ قرعہ اندازی پیش ہیں ،قرعہ اندازی کی آخری تاریخ 31 مارچ ہے کم از کم 300 سو کا لوڈ استعمال کریں اور جیتیں ٹویوٹا کرولا۔یعنی وہی پرچی سسٹم تین سو کا لوڈ اور جیتیں گے کئی لاکھ روپے کی ٹویوٹا ایک اور کمپنی کا میسچ دیکھیں،آپکے نمبر کیلئے زبردست خبر کمپنی نے چنا ہے آپ کو 170 تولا سونے کیلئے بس اس میسچ کو ریپلائی کریں صرف چھ روپے میں اور جیتیں 170 تولا سونا۔ چھ روپے بہت ہی معمولی رقم ہوتی ہے ہر آدمی کہتا ہے کہ صرف چھ روپے ہی تو ہیں ، میسچ کو ریپلائی کردیتا ہے ، عجیب بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی کو سونا جیتتے اور ٹویوٹا لیتے نہیں دیکھا نا سنا۔ چینلز پر بھی کم ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ سکیم آئی ہے اور یہ اس کی قرعہ اندازی ہوئی ہے اور اتنے لوگوںکو انعامات ملے ہیں ۔بس اک گورکھ دھندہ ہے جو موبائل کمپنیاں چلا رہی ہیں۔
Lottery
ٹی وی چینلز پر ہر مشہوری میں یہی پیغام دیا جارہا ہے کہ ہماری پروڈکٹ خریدیں اور جیتیں پیش بہا انعام ۔ملتا وہاں بھی کسی کو کچھ نہیں ،فائدہ پہنچ رہاہے تو بس کمپنی کو۔ جوا کسی بھی شکل میں ہو وہ اسلام کی رو سے حرام اور آئین پاکستان کی رو سے جرم ہے ۔پھر ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ کہ ایک غریب آدمی کم سرمایہ دار ٹی وہ کولاٹری کے ذریعے فروخت کرئے تو مجرم اور وہی کام بڑا سرمایہ دار ،بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سرعام کریں تو وہ جائز۔ جرم جرم ہوتا ہے چاہے چھوٹا کرئے یا کوئی بڑا لیکن یہاں پر نظام ہی الٹا ہے کوئی میچ پر پیسے لگائے تو مجرم جبکہ میچ کروانے والے خود پبلیسٹی کریں کہ میچ کے ٹکٹ لیں اور نمبر سنبھال کر رکھیں ، قرعہ اندازی میں باہر جا کر میچ دیکھیں یہ جائز ہو جاتا ہے۔ یہ دوغلی پالیسی کو اب ختم ہونا چاہیے ، قانون ہر ایک کیلئے ایک جیسا ہویہ کیا میں قرعہ اندازی کے ذریعے کوئی چیز فروخت کروں تو قانون حرکت میں آجائے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں وہی کام سرعام کریں اور کسی قانون کے اداروں کے کان پر جوں بھی نہ رینگتی ہو۔
ہر بڑی ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیاں ایسی تشہیری مہم چلا کر اربوں روپے عوام سے بٹور رہی ہے اور عوام ہیں کہ بس لٹتے ہی چلے جارہے ہیں ،کسی سے بھی بات کرو وہ یہ کہے گا کہ پانچ دس روپے سے کیا بنتا ہے واقعی پانچ دس روپے سے ایک آدمی کا کچھ نہیں بنتا لیکن ایک کمپنی کا بڑا کچھ بنتا ہے ۔کبھی حساب لگا کرتو دیکھیں مثلا ایک موبائل کمپنی کی سمز ڈھائی سے تین کروڑ یوز ہورہی ہیں ۔اتنے ہی میسچ گئے ،تین کروڑ میں سے اگر پچاس لاکھ لوگوں نے بھی ایک دن میں ریپلائی کردیا تو کمپنی کو تین کروڑ روپے کا سرمایہ جمع ہو گیا ،انتہاء تو یہ ہے کہ جس چیز کا لالچ دیا گیا تھا وہ بھی کمپنی نے کسی کو نہیں دیا۔ خود ایک ہی جھٹکے میں تین کروڑ روپیہ کمانے والی کمپنی اپنے صارف کو کیسے لوٹ رہی ہے۔کیا حکومت کو یا اعلی عدلیہ کو اس بات کا نوٹس نہیں لینا چاہیے؟ ضرور لینا چاہیے۔کسی طرح کمپنیاں عوام کو لوٹ کر بے وقوف بنا رہی ہیں اور صرف روپوں سے نہیں بلکہ ایمان سے بھی خالی کررہی ہیں۔ عوام یاد رکھیں جوا کبھی کسی کا نہ ہوا۔اس لیے کمپنیوں کے دھوکے میں نہ آئیں اپنے ایمان اور اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم انعامات کے لالچ میں ضائع نہ کریں۔ عوام انعامات کے لالچ میں اپنی رقم سے محروم ہوکر ان کمپنیوں سے خود اپنا استحصال کروا رہی ہیں۔
Pakistan
سرمایہ دار مختلف حلیوں بہانوں سے عوام سے روپے کو بٹورنا اپناحق سمجھتے ہیں ،سرمایہ دار صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا یہی سوچ رکھتا ہے کہ کیسے وہ اپنی پروڈکٹ کو چلائے بھی اور انعامات کا لالچ دے کر عوام کو لوٹے بھی ۔ہماری بات ہوئی ایک مولانا سے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اسلام میں یہ حرام ہے کہ لوگوں کو انعام کے لالچ میں چیزیں فروخت کی جائیں۔ جب ہمارا دین اسلام اور آئین پاکستان ان سب چیزوں کو حرام اور جرم قرار دیتا ہے تو پھر اس ملک میں یہ کام ہونا باعث حیرت ہے۔سرمایہ داروں نے ملک کے تمام اداروں کو اس طرح اپنی گرفت میں کررکھا ہے کہ اب ادارئے بھی اپنے آپ کو ان کی گرفت سے آزاد نہیں کروا پارہے۔گورنمنٹ سے کیا گلا کریں وہ تو خود عوام کا خون چوس رہی ہے وہ کیا روکے گی ان کو ۔ساری سردیاں گذر گئیں گیس چولھوں میں نہیں آئی مگر جب بل آئے تو اتنے زیادہ کہ خدا کی پناہ۔یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب تم گیس ہی نہیں دے رہے تو بل اتنے کیسے بھیج رہے ہو۔اس لیے ہماری اعلی عدلیہ سے ہی اپیل ہے کہ وہ ملک میں جاری ان انعامات کی پرکشش پبلسٹی کو روکیں ۔کمپنیوں کو پابند کریں کو وہ عوام کو لوٹنا ختم کریں۔