پاکستان کا سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ و آفت زدہ ضلع جعفرآباد کے ہزاروں سیلاب متاثرین کی انکشافات کے مطابق WFP ولڈ فوڈ پروگرام کے لوکل این جی اوز کی تمام ٹیموں نے کرپشن کی ہے کی گئی ہیں کہ تمام این جی اوز سے بطور رشوت ہزاروں راشن وصول کر کے ان کے ساتھ قانونی کاروائی سے بچانے کے لیے تعاون کی ہے۔این جی اوز کے افسران میں اکثریت کی تعلق اس علاقے سے ہے جنھوں نے اپنے اپنے ساتھیوں و رشتہ داروں میں راشن غیر قانونی طریقے سے تقسیم کی ہے۔
سیلاب متاثرین نے عالمی ادارہ خوراک کی گھی اور آٹے کو ناکارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ناکارہ اشیاء فراہم کر کے ان کے ساتھ مزاق اور عزت نفس کو مجروع کی ہے۔ متاثرین کے کے مطابق کئی بار ضلعی انتظامیہ اور عالمی ادارہ خوراک کے کے شکایات کے لیے خوراک پر دیئے گئے نمبر 0518312940 پر کئی بار شکایات درج کروچکے ہیں مگر کوئی بہتری نہیں آئی اور نہ کوئی خاص ایکشن لیا گیا۔
امدادی خوراک کی تقسیم غیر شفاف طریقے سے ہوئی ہے اور مخصوص پرستی بھی نظر آئی ۔ غیر حقداروں کو راشن کی فراہمی سے غریب متاثرین کی حقوق پر ڈاکہ ڈالنا کے مترادف ہے۔ سیاسی و بااثر شخصیات کی سفارشات کی بنیاد پر مخصوص علاقوں میں باربار راشن کے فراہمی کے سوال کرنے پر WFPولڈ فوڈ پروگرام کے پارٹنر لوکل این جی اوز کے افسران نے مجھے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی رکاوٹ کی وجہ سے اور حلقہ بندی کی وجہ سے مجبور ہیں۔ اور ضلعی انتظامیہ نے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو بے شمار سیلاب متاثرہ دیہاتوں و یونین کونسل کی فہرست غلط دی ہے ۔ جیسا کہ یونین کونسل اؤل، دوئم، سوئم ڈیرہ اللہ یار سمیت 20اہم متاثرہ یونین کونسل کو صرف سیاسی بنیاد پر نظر انداز کی ہے۔ جس کی زمہ داری ضلعی انتظامیہ کے سپرد ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی فوکل پرسنEDO سی ڈی جعفرآباد عابد علی رندنے متاثرین کی سوال کے جواب پر فرمایا کہ یہ ضلعی انتظامیہ کی کوئی کردار نہیں ہے یہ کا م تو پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کا ہے۔ ضلعی انتظامیہ صرف مانیٹرنگ کرتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مانیٹرنگ ایسا کی جاتا ہے کہ نصف جعفرآباد کو غیر متاثرہ تصور کر کے مخصوص دیہاتوں کو امدادی خوراک تقسیم کر کے جس میں امیرلوگوں کو سہر فہرست ہے کو فراہم کر کے متاثرین کی شکایات کے جواب میں اپنی جان چھڑا کر NDMA اور PDMA کے سر پر ڈالنا بطوز انتظامیہ زیب دیتی ہے۔
جناب عالی مانیٹرنگ سے مراد یہ کہ خوراک کی تقسیم جائز ہو رہی یا نا جائز۔ جبکہ متاثرین آپ کو عالمی ادارہ خوراک کی غلطی کو آپ کے سامنے بمعہ ثبوت و دلائل پیش کر رہے ہیں تو آپ کی مانیٹرنگ کا پہلا اصول ہے کہ آپ عالمی ادارہ خوراک یا این ڈی ایم اے میں ہونے والی نا انصافی پر ایکشن حق دار کا ساتھ دیں جس کی خاطر آپ کو مانیٹر بنایا گیا ہے۔
Chairman Zafar Iqbal Qadir
میں نے این ڈی ایم اے کے چیئرمین ظفر اقبال قادر سے رابطہ کر کے اس سلسلے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ بیٹا این ڈی ایم اے کا کام متاثرہ یا آفت زدہ علاقے کے لیے امدادی و ضروری اشیاء کی فراہمی کرنا ہے وہ صوبائی حکومت کو جو بعدازاں متاثرہ علاقے کے انتظامیہ کو فراہمی کے رپورٹ طلب کرتا ہے۔ عالمی ادرہ خوراک کے آفیسر سید اشرف کے مطابق حلقہ بندی این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے بعد WFPولڈ فوڈ پروگرام اسلام آباد سے کی جاتی ہے۔ اگر اسلام آ باد سے حلقہ بندی کی جاتی ہے تو ضلعی انتظامیہ کے ہداہات پر مخصوص دیہاتوں و یونین کونسل میں خوراک کی تقسیم کیوں ک جاتی ہے اور ان کے احکامات کو تسلیم کیوں کی جاتی ہے۔
بحرحال WFP ولڈ فوڈ پروگرام کی امداد غیر شفاف طریقے سے تقسیم ہو رہی ہے۔جس کے گواہ و شوائد کے لیے کوئی بھی دارہ جعفرآباد کے سیلاب متاثرین کے کسی بھی فرد سے تحقیق کر سکتی ہے۔ امداد فراہم کرنے والےWFPولڈ فوڈ پروگرام نے متاثرین کو بھکاری بنا دیا ہے ۔ سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے حکومت کی لاپروائی نے متاثرین کو احساس محرومی کی شکار بنایا ہے کم از کمWFPولڈ فوڈ پروگرام اپنی امداد کے تمام طریقہ کا ر کو درست کر کے ایک ایک بار راشن فراہم کرتا تو بھی اچھا تھا۔
ولڈ فوڈ پروگرام نے غریبوں کے بجائے امیرطبقہ کو خوراک تقسیم کی ہے جس سے ناانصافی ظاہر ہوتی ہے ڈیرہ اللہ یار میں WFPولڈ فوڈ پروگرام کی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ تو بڑی مشکل سے شروع ہوا لیکن “اندھا بانٹے ریوڑھیاں اپنے اپنوں کو” کی مترادف شروع ہوا۔WFPولڈ فوڈ پروگرام نے چند مخصوص جگہ پر امداد فراہم کی ہے لیکن آج بھی ڈیرہ اللہ یار جعفرآباد کی درجنوں یونین کونسل میں مقیم سیلاب متاثرین امداد کے واسطے ترس رہے ہیں۔متاثرین کے مطابق WFPولڈ فوڈ پروگرام کے پارٹنر لوکل این جی اوز افسران انھیںمکمل نظر انداز کر کے حقیقی سیلاب متاثرین غریب ،مفلس، یتیم، بیووہ اور ضرورت مند حضرات انکی امداد کے لیے ترس رہے ہیں۔
جہاں غریب متاثرین کی اکثریت ہے وہاں پر کسی کو امداد فراہم نہیں کی گئی ہے اور جہاں امیر طبقہ رہتے ہیں یا تو بھر باثر شخصیات، زمیندار ، ودھیرہ،سیاسی شخصیات رہتے ہیں وہاں پر WFPولڈ فوڈ پروگرام کی امداد فراہم کر کے نا انصافی کرنے میں کوئی کثر نہیںباقی چھوڑی ہے۔ سیلاب متاثرین نے خوراک کو بازا میں اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے کی الزامات عائد کیے ہیں حالی ہی دن میں ایک مقامی این جی او کے ویئر ہاؤس سے خوراک چوری ہو جانے کی انکشاف ہو ا ہے متاثرین چوری ہونے عمل کو مسترد کرتے ہوئے ہزارو ں کوراک کو بازار میں فروخت کرنے کو حقیقی بات قرار دی ہے ویسے تو WFP ولڈ فوڈ پروگرام قدرتی آفات میں غریب متاثرین کی بر وقت امداد کی دعویٰ تو کرتی ہے مگر اپنے قول پر پورا اترنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔
Flood Victims
اگر دیکھا جائے تو اصل مشکل وقت تو متاثرین کی وہ ایام تھے جن دنوں میں متاثرین کے گھروں میں پانی نے سالوں کی محنت کو ریت کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ جب گھروں میں پانی تھا تو غریب متاثرین سڑکوں کے کنارے دھوپ میںپانی روٹی اور سر ڈھاپنے کے لیے ترس رہے تھے۔ مچھروں اور گرمی شدت سے لوگ بیمار پہ بیمار ہوتے جا رہے تھے۔ معصوم بچوں کی چیخ و پکار دماغ اور دل کو ہلانے والی مناظر پیش کر رہے تھے۔ عمردراز خواتین و حضرات کی حالت روح کو ہلانے والے حالات میں تھے۔جب لوگ پانی اور روٹی کے لیے ترس رہے تھے ۔ اپنی سرو سامان کو بہتے ہوئے دیکھ کر احساس محرومی کی شکار ہو رہے تھے ۔جب انتہائی مصیبت میں تھے تو سب کو پکار رہے تھے حکومت و انتظامیہ تو نا اہلیت کی وجہ سے ناکام ہوئے تھے تب WFPولڈ فوڈ پروگرام بھی موجود نہیں ھے۔
جب خوراک و امداد کی ضرورت تھا تب تو WFPولڈ فوڈ پروگرام والے اسلام آباد میں عالیشان تنخواہ و مرات کے ساتھ لطف اندوز ہو رہے تھے ۔اب جب کہ غریب متاثرین اپنے گھروں میں پہنچ کر معمول کے مطابق زندگی گزار ہے ہیں تو خوراک کا سلسلہ شروع کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ضرورت نہیں فقط ٹائم پاس اور دکھاوے کے لیے امداد شروع کی ہے اس میں بھی حقیقی متاثرین کو نظر انداز کر کے زخم پر تو نمک لگا رہے ہیںکیونکہ جس کو ضرورت ہے اس کو دینے سے قاصر ہیں اور جسے نہیں دینا چایئے مثلا جو امیر ہے جس پر زکواة دینا فرض ہے اس امیر کو زکواة فراہم کر کے کونسا اچھا کام کر رہے ہیں۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ WFPولڈ فوڈ پروگرام اپنی امداد فراہمی کو مساوات اور حقداروں میں تقسیم کرنے کی نظام کو درست کرے ۔ لیکن WFPولڈ فوڈ پروگرام کے لوکل این جی او ز کے افسر ان ظالم بنے ہوئے ہیں ۔ متاثرین کے نام پر امداد کو ہضم کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا سلوک ایسا ہے جیسا کسی مجرم کے ساتھ ہوتا ہے۔میںWFPولڈ فوڈ پروگرام کی عالیٰ افسران سے تحقیقات کے لیے درخواست کرتا ہوں ۔WFPولڈ فوڈ پروگرام ایک ایسی ٹیم تشکیل دے جو لوکل این جی اوز ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ اور ریکارڈ کو مدنظر رکھ کر تمام ریکارڈشدہ لوگوں سے ملیں اور تحقیق کریں کہ آیا اُس شخص کو اتنی خوراک ملی بھی جو لوکل این جی اوز کی ریکارڈ میں درج ہے۔
انگوٹھا اور دستخط کی دوبارہ تحقیق کریں کہ واقعی میں اُسی شخص کے ہیں جس کو خوراک دیا گیا یا نہیں؟ یا بس ریکارڈ بنا کر خود بود کی ہے؟ کس کو کتنا دیا ہے ؟ کیا وہ واقعی ایک غریب متاثرہ ہے یا نہیں ؟ یا کسی اور شہر سے آکر خوراک لے جا رہاہے؟ تمام درج شدہ عوام میں سے 5% لوگوں سے ہی تحقیق کریں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہی ہو جائیگا۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں تو 98% ریکارڈ جعلی ثابت ہونگے کیونکہ متاثرین کو کچھ ملا ہی نہیں تو کیسے کوئی تسلیم کر یگا۔
لوکل این جی اوز نے ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت کے ساتھ جعلی تصاویر اور جعلی ریکارڈ درج کروا کر کرپشن کی ہے متاثرین کی اس تحقیق کے لیے درخواست کو نظر انداز کرنے کے بجائے WFPولڈ فوڈ پروگرام سنجیدگی سے قدم اٹھائے تو میں سمجھتا ہوں بہترین قدم ہوگا۔پاکستان میں تو ہر جگہ ہر قت کرپشن و ہڑپشن ضرور ہوتی ہے WFPولڈ فوڈ پروگرام کو پاکستان میں رہ کر خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے سے بچایا جائے کیونکہ WFPولڈ فوڈ پروگرام غریب اور آفت زدہ لوگوں کی امداد کرتا ہے تو کم از کم عام لوگوں نسبت انھیں رحم و کرم کی بہت ضرور ت ہوتی ہے۔
جعفرآباد میں WFPولڈ فوڈ پروگرام کی خوراک کو ظالمانہ طریقے سے تقسیم کرنے کی روک تھام کی ضرورت ہے۔ جتنی بھی امداد موجود ہے یا فراہم کرنا ہے تو اچھے طریقے سے تقسیم ہو بہتر ہے جس سے غریب متاثرین و آفت زدہ لوگوں کی عزت ِ نفس مجروع نہ ہو ورنہ اپنی کاروائی کو بند کر کے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں تو بہتر ہے کیونکہ اللہ نے پیدا کیا ہے تو کسی نا کسی طریقے خود ہی خوراک فراہم کر یگا۔
جیسا کہ سیلاب کے دن فراہم کیا جس دن جعفرآباد میں چاروں طرف سے راستے بند تھے پانی ہی پانی تھا مگر بھوک و افلاس سے کوئی نہیں مر سکا ہاں بیماری اور تنگی نے تنگ کر کے بہت سے جان ہضم کر لیے مگرWFPولڈ فوڈ پروگرام اس وقت بھی نہیں موجود نہیں تھا نہ حکومت۔ بحرحال جعفرآباد کے سیلاب متاثرین کے ساتھ گزشتہ سال کی طرح عالمی ادارہ خوراک اور این ڈی ایم اے سمیت ضلعی و صوبائی حکومت کی نا انصافیاں عروج پر ہیں جس سے متاثرین بے انتہا مایوس اور کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔