ان دنوں پاکستان میں تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں مجھے ان دنوں پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی بے شمار پارٹیوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہر کسی نے پنجاب حکومت کو نشانہ بنا نا شروع کر رکھا ہے جس کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو ختم کر دیا جائے تو تبدیلی ممکن ہے گذشتہ روز بوچھال کلاں میں پی ٹی آئی کی کارنر میٹنگ اٹینڈ کرنے کا موقع ملا جس میں میں نے مقررین کے بے شمار لطیفے سنے ایک صاحب جو خاصے پڑھے لکھے تھے کا ارشاد کچھ یوں تھا کہ میاں شہباز شریف جو خود کو خادم اعلیٰ کہتے ہیں پڑھے لکھے گریجویٹ لوگوں کو ٹیکسی ڈرائیور بنانا چاہتے ہیں انہوں نے تیکسی کے لئے شرط رکھی ہے کہ تیکسی لینے والا گریجویٹ ہو اس کے خیالات سن کر مجھے اس پر بے حد ترس آیا کہ یا تو وہ عقل سے فارغ ہے یا پھر مسلم لیگ سے دشمنی اور ذرداری سے محبت میں وہ کیا کہ رہا ہے۔
زرداری سے محبت کا لفظ میں نے جس مقصد کے لئے لکھا ہے آگے چل کر وہ سامنے آجائے گا میں اس شخص کی باتیں سن کر سوچے بنا نہ رہ سکا کہ ملک میں بے روزگاری کہاں سے شروع ہوئی کیا خادم اعلیٰ ہی اس کے موجب تو نہیں پاکستان میں جب نوکریوں پر پابندی لگی اور یہ پابندی متواتر کئی سالوں تک جاری رہی ہر سال کتنے لوگ تعلیم سے فارغ ہوکر روزگار حاصل کرنے والوں کی لائن میں لگے جب اس کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کر گئی تو نوکریوں سے پابندی ہٹا کر پاکستانی قوم کا تماشہ دیکھا گیا یہ لوگ کون تھے اور انہیں کہاں سے یہ ڈیکٹیشن ملی تھی کہ وہ پاکستانی قوم کو صرف اس کام پر لگائیں تاکہ وہ کچھ اور سوچنے کے بجائے معاش کے چکر میں لگی رہے اس کے بعد ملک میں کریپشن ڈاکو راج شروع ہو گیا جس کو نوکری نہ ملتی وہ کلاشنکوف اتھا لیتا راولپنڈی اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں کتنے ڈاکو پکڑے گئے جو گریجویٹ تھے جب انہیں نوکری نہ ملی تو اپنے خاندان کو بھوکھا تو مار نہیں سکتے تھے انہوں نے یہ کام شروع کر دیا پاکستا نی نوجوان خود کشی جیسے ارتکاب بھی کرنے لگے۔
Shahbaz Sharif
جس کی وجہ بے روزگاری ہی تھی اس سارے حالات کا جائزہ لیا جائے تو میاں نوز شریف یا شہباز شریف نے اگر گریجویٹ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی کوشش کی تو ہمارے سیاست دان نما لوگوں نے کیا کیا الاپنا شروع کر دیا میں اس کی باتیں سننے کے بعد یہ سوچ رہا تھا کہ میاں شہباز شریف کو انہیں ٹیکسی نہیں کلاشنکوف پکڑانا چاہے تھی شاہد میرے دوست کا بھی یہی خیال ہو گا کیونکہ ہمارے ملک کو بے روز گاری کی جس دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے اب یہ ایک ناسور بن چکا ہے جس کو قابو کرنا کسی کے بس میں نہیں اب صرف اقتدار بکی کرسی تک پہنچنے کے لئے ہمارے لیڈر نعرے تو لگا سکتے ہیں مگر اس ناسور کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اگر ان کے دل میں غریب عوام کا درد موجود ہے تو وہ پاکستانی قوم پر اقتدار سے باہر بیٹھ کر بھی کام کر سکتا ہے نہ کہ ایک دوسرے پر الزام لگا کر ہمارے ملک میں الیکشن قریب آتے ہی موسمی سیاستدان میدان میں نکل آئے اور غریبوں کو بیوقوف بنانے کا کام شروع کر دیا ان کے دل میں غریب کا درد بھی صرف الیکشن کے دنوں میں ہی اٹھتا ہے اور پھر؟ میں تذکرہ اپنے پڑھے لکھے دوست کا کر رہا تھا جو کس عجیب سے کیفیت سے دوچار تھا پھر ایک اور صاحب اٹھے جنہوں نے فرمایا کہ ملک میں لیب ٹاپ دیئے جا رہے ہیں اور کروڑوں روپے سستی روٹی کی نذر کر دئیے گئے تو سوچنے کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو غریب کو ہوٹل پر روٹی تین روپے میں ملتی تھی پھر اچانک روٹی دس روپے کی ہو گئی۔
آٹا مل نہیں رہا تھا اگر کسی نے غریب کو روٹی فراہم کرنے کا سوچا تو بڑا غلط کام کیا انہیں ہر گز ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ میرے برادر کے گھر میں آٹا بھی تھا اسے کیا معلوم کہ غریب مزدور جو پانچ ہزار روپے کماتا تھا اس کے تین ہزار تو اپنی روٹی پر خرچ کرتا اور اپنے بچوں کے لئے اس کے پاس دو ہزار بچ جاتے میرے ان دوستوں کی آمدنی باہرون ملک میں ملازمتوں سے ہے اگر یہ بھی کسی مل میں کام کرتے اور اس سارے جھنجٹوں میں پڑھتے تو انہیں پتہ چلتا کہ غریب کیسے گزر کر رہا ہے ان کو لیب ٹاپ ایک آرڈر پر مل جاتا ہے انہیں کیا معلوم کہ وہ بچے جو صرف خواب میں ہی لیب ٹاپ دیکھ سکتے تھے اگر انہیں کسی نے لیب ٹاپ لے دیا تو ان کے دل میں ہول ااٹھنا شروع ہو گئے اس وقت ملک میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں تمام سیاسی قوتیں صرف ایک ہی مشن پر گامزن ہیں وہ ہے میاں برادران کو سیاست سے آوٹ کرنا جس کے لئے کبھی عمران خان کے سونامی کو رواں کیا جاتا ہے اور کبھی طاہرالقادری کو کیونکہ تاریخ پر ریکارڈ دیکھیں تو ملک کو اگر کسی نے کچھ دیا تو وہ نواز شریف کی حکومت نے مسلم لیگ ن کی حکومت واقع ہی غریب لوگوں کی ہمدرد نکل اس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا ملک کو موٹر وئے جیسا عظیم منصوبہ دیا۔
IMF
پاکستان کو IMF سے چھٹکارہ دلایا ان کے دور میں عوام کو روز گار دینے کی کوششیں کی گیئں ان کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا اگر وہ پانچ سال پورے کر جاتے تو پاکستان خوشحال ملک ہوتا مگر ہمارے لیڈروں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے غریب عوام کو تو خوار کیا ہی ملک کو بھی سو سال پیچھے دھکیل دیا اس وقت اگر ملک کا جائزہ لیں تو سندھ میں آج بھی پیپلز پارٹی کا زور ہے اس میں نہ تو سونامی ہے اور نہ ہی کوئی اور پختون خواہ میں بھی انہی کے اتحادی آج بھی زور میں ہیں بلوچستان میں بھی انہی کے اتحادی کسی بھی صورت میں کامیاب ہیں پنجاب میں صرف مقابلہ ہے جہاں سونامی طاہرالقادری اور کئی لوگ صرف مسلم لیگ ن پر تابڑ توڑ حملے کرنے کے لئے اور عوام کو سنہرے خواب دیکھانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اب دیکھیں بچوں کا بہتر مستقبل زرداری دے گا دے رہا ہے کیونکہ پنجاب میں صرف مسلم لیگ ن آوٹ ہو جائے تو پی پی پی ایک بار پھر اقتدار کی کرسی تک پہنچ سکتی ہے اور یہ لوگ کونسے محب وطن ہیں جو عوام کو بہتر مستقبل کے خواب دیکھا رہے ہیں۔