پیرس (عاصم ایاز ) میٹرو بس سروس کا منصوبہ مکمل ہو گیا اور بس بھی چل پڑی ۔گیارہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے والے اس منصوبے پر تنقید کے بھی نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔کسی نے اسے جنگلہ بس کہا تو کوئی یہ کہتا سنا گیا کہ اس منصوبے سے شہر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے منصوبے پر 30ارب خرچ ہونے کا دعوی کیا ہے۔ پرویز الہی کہتے ہیں 70ارب روپے خرچ کر دیئے گئے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ منصوبے پر 90ارب روپے کا خرچہ آیا ہے۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اگر واقعی 70یا 90ارب روپے خرچ ہوئے تو پھر پنجاب حکومت نے اضافی 40 تا 60ارب روپے کہاں سے خرچ کر دیئے۔57ارب اضافی خرچ ہوں تو اور بات ہے، اتنی بڑی رقم کسی اور مد میں خرچ کر کے چھپائی نہیں جا سکتی۔
یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت اس بس کو چلانے کے لیے ہر ماہ ایک ارب روپے کی سبسڈی دے گی۔دنیا میں جہاں کہیں بھی حکومتیں اپنے عوام کو سفری سہولتیں مہیا کرتی ہیں وہاں سبسڈی ضرور دی جاتی ہے۔اگر کسی نے کوئی اعتراض کرنا ہی تھا تووہ یوں ہو سکتا تھا کہ اس میں کرپشن کی گئی۔اگر کوئی ثبوت کے …ساتھ کرپشن کا الزام لگاتا تو سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ اضافی خرچ کا الزام بے معنی ہے۔ اس سے یہی مطلب لیا جائے گا کہ آپ کے پاس اعتراض کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا، اس لیے ادھر ادھر کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بس سروس آئیڈیل ہے اور اس میں سرے سے کوئی خامی نہیں ہے۔ جتنی کم مدت میں یہ منصوبہ مکمل کیا گیا ہے اس میں کچھ خامیوں کا رہ جانا ناقابل فہم نہیں ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ لاہور کی نشتر کالونی میں میٹرو بس سروس کی افتتاحی تقریب میں ترکی کے نائب وزیراعظم کے اس اعتراف کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ لاہور میٹرو کا منصوبہ ترکی سے بہتر ہے۔ استنبول کے ڈپٹی میئر نے اس کی ریکارڈ مدت میں تکمیل پر حیرت کا اظہار کیا۔مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ لاہور کی ایک سڑک پر اتنی رقم کیوں خرچ کر دی گئی۔ ظاہر ہے اس منصوبے کی لاہور میں ہی ضرورت تھی۔ ایک کروڑ آبادی کے اس شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل تھے، اس لیے یہ منصوبہ بنایا گیا۔ یہ بھی پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ جتنا بڑا شہر ہوتا ہے اس میں اتنے زیادہ ترقیاتی کام ہوتے ہیں۔ امریکہ میں نیو یارک میں میٹرو ٹرین چلتی ہے۔ شکاگو میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ دہلی میں میٹرو ٹرین ہے۔ چندی گڑھ میں نہیں ہے۔اسی طرح اور بھی مثالیں ہیں لیکن فی الوقت یہ دو مثالیں ہی کافی ہیں۔