کتابوں میں پڑھا ہے کہ دنیا کی تخلیق ہی حق و باطل کی لڑائی اور خیر و شر کی کشمکش کا مجموعہ ہے جس میں انصاف اور قانون کا مکمل طور پر عمل دخل ہونا بے حد ضروری ہے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی قانون کی پاسداری کا صحیح استعمال کیا جاتا ہے وہاں وہاں فتح ہمیشہ حق اور خیر کی ہوتی ہے۔ اس لئے آج ہمارے ملک میں بھی اس چیز کی لازمی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ قانون کا صحیح استعمال کیا جائے کیوں کہ اسی میں سیاست اور ملک و قوم کی بھلائی مضمر ہے۔
کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹریفک کے کارندے نے روکا اور فوراً ہی مُک مکا کرکے روانہ کر دیا ، کسی ٹرک کو روکا اور ٹرک کے کلینر نے بجائے اتر کے اس کے پاس جانے کے کھڑکی سے ہی بیس روپئے کا چمکتا ہوا نوٹ پکڑا کر چلتا بنا۔ کیا یہی قانون کی عملداری کا نام ہے۔ کیا اسی طرح معاشرے کی ترقی ہوتی ہے۔ کیا اسی طرح ہم لوگ ترقی کے زینے چڑھنے کے خواب بُن رہے ہیں۔
کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ انصاف کی خواہش میں کتنے بے گناہ لوگ جان کی بازی ہار رہے ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے، اگر قانون کا نام انسانی تحفظ ہے تو ایسا کیوں ہوتا ہے، کتنے غریب اور لاچار ایسے ہیں جو انصاف کی امید سے تنگ ہیں۔ جس کی اطلاع ہمیں روز اخبارات اور میڈیا کے خبروں کے ذریعے ملتی رہتی ہے۔ یہ تو انفرادی معاملے کی بات تھی مگر ہمارے یہاں مشترکہ مسائل بھی کچھ اسی طرح کے معاملے سے دوچار ہیں۔
ملک کی فضا بارودوں، دھماکوں اور فائرنگ کی بُو سے بھر چکی ہے ۔ ہر طرف لاشیں گِر رہی ہیں، خدا کا عذاب ہم پر روز نت نئے زاویے سے نازل ہو رہا ہے، مگر کوئی بھی گریبانوں میں جھانکنے کو تیار نہیں۔ سب ہی 2013ء کے انتخابات کے پیشِ نظر اپنی صفیں درست کرنے، پر کشش ایشو تلاش کرنے اور عوام کو بے مطلب کی بحثوں میں الجھانے کے راستے ڈھونڈ رہی ہیں۔ مگر گِرتی ہوئی لاشوں کو روکنے کے لئے کوئی بھی عملی اقدامات نہیں کر رہا صرف میڈیا پر بیانات اور ٹاک شو پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
killed Peoples
کوئی اُن سے پوچھے جن کا اپنا اُن سے بچھڑ کر منوں مٹی تلے سو چکا ہے ان کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے ۔اگر عوام کو اس دہشت گردی کا ایندھن بنانا ہے تو اسی میں کیوں ڈھکیلا جا رہا ہے۔ ہر موج کے جال میں سینکڑوں مگر مچھ اپنے مہیب جبڑے کھولے شکار کی تلاش میں ہیں ایک ہی بار ایسا کر گزریئے۔ جمہوریت کی کھیتی سے اب تک روزی نہ پا سکنے والے نوجوان نصیب دہقان کو رو رہے ہیں۔ اور ان میں بھی بے چینی پھیلی ہوئی ہے کہ انہیں روزگار میسر نہیں یوں ان میں بھی نفرت کی شمع نہ روشن ہو جائے اس لئے اس معاملے پر بھی ضرور حکومتوں کو نظر رکھنی چاہیئے۔
کیونکہ اب تک روزی نہ پا سکنے والے ایک شخص سے یونہی بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کے اندر کس قدر زہر بھرا ہوا ہے۔ اور وہ بھی ہر خوشۂ گندم کو جلانے کے در پے نظر آتا ہے۔ کہتا ہے کہ سوکھے پتوں کے ڈھیر کی طرح ہمارا مستقبل جل رہا ہے لیکن کسی گوشہ سے تشویش و پریشانی کی لہر دکھائی نہیں دیتی، بلکہ شرارت آمیز مسکراہٹ رقص کرتی دکھائی پڑتی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈران اس چکی میں پسنے والوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کر رہے ہیں۔ وہ آنے والی سرخ آندھی سے بے خبر ہیں۔ جو لوگ قیادت کے منصب پر بزعم موروثیت فائز ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ آنچ جتنی تیز ہوگی ، آندھی جتنی بھیانک ہوگی، حالات جتنے دھماکہ خیز ہونگے ان کی قسمت کے ستارے اتنے ہی بلند ہوں گے اور جو سچ مچ آنے والے حالات سے پریشان نہیں ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ افراد ان کے وجود سے آباد ہیں، وہ دنیا کے جھمیلوں میں پڑنا نہیں چاہتے بس اپنا الو ہی سیدھا کرنے کے در پہ ہیں۔ ایسے لیڈران کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ کہیں ان کی شخصیت کے تقدس کوٹھیس نہ لگ جائے، کیونکہ ان کے تقدس کے آئینے بہت نازک ہونگے جو موضوعات کی فضا میں اچھالے گئے تو ضربِ کاری بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
جذب دروں کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، لگن اور تڑپ ایسی آگ ہے جو بجھائے نہیں بجھتی، یہی آتش جذبوں کے صداقت کی امین ہے۔ لگن اور تڑپ ہو تو پہاڑ بھی راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران بھی ویسی تڑپ اور لگن کا اظہار کریں تو اصل کو اس کا حق مل سکتا ہے۔ عوام تو عوام ہوتے ہیں کوئی کسی پارٹی کا اور کوئی کسی پارٹی کا نہیں ہوتااس لئے ان کے ساتھ یہ سوتیلا پَن اب ختم ہو جانا چاہیئے۔
حکومتوں میں شامل ایسے فسطائی ذہنیت کے افسرانِ بالا پر کڑی نظر رکھ کر اس کا سدِّباب کیا جا سکتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اس کی خطاء کو معاف کرکے دنیا میں اس کے زندگی گزارنے کے بہترین اسباب پیدا کئے۔ اس دنیا میں ہر وہ چیز پیدا کی جس سے اس رب العزت کا بندہ فیض یاب ہو سکے۔ لیکن وہ انسان ہی کیا جو خیر میں شر کو نہ پیدا کر دے۔ یہ فطرت خدادا نہ سہی لیکن شیطان تو ہر انسان کے ساتھ لگا ہی رہتا ہے۔ اس لئے اب وقت آن پہنچا ہے کہ انسان نما بھیڑیوں کے شیطانی فتنوں سے عوام کو آزاد کرایا جائے ۔ یہ کام ایسا مشکل بھی نہیں ہے اب یہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس راہ پر ڈالتے ہیں۔ عارف محمود آبادی نے کیا خوب کہا ہے: لن ترانی سے کچھ نہیں ہوتا دیکھئے آپ نے کیا کیا ہے جس میں انسان ہی نہ ہو محفوظ اس ترقی سے فائدہ کیا ہے قتل و غارت گری کا مسئلہ حل کرکے عوام کو امن و سکون فراہم کرنا اولین ذمہ داریوں میں سے ہے مگر اس پر بجائے سخت کاروائی کرنے کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں چھوٹ دیکر افرا تفری کا بازار گرم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خدارا اس پر کنٹرول کریں میل ملاپ کی باتیں اپنائیں، ورنہ یہ بیماری ایسا ناسور بن جائے گی جس کا علاج نا ممکن ہو جائے گا۔ اور اس ناسور سے عوام الناس کو فی الفور بچایا جائے اور تفرقہ ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔
ان حالات میں ہمیں تحمل، بردباری اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی پارٹیاں بجائے عوام کو چارہ بنانے کے ان کی داد رسی کو وطیرہ بنائیں ۔ الیکشن نزدیک ہے آنے والے دنوں میں درجہ حرارت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے شر انگیزی بھی بڑھ سکتی ہے اس کا فوری تدارک ضروری ہے۔
Pakistan Elections
جذباتی ردعمل سے ان طاقتوں کو موقع فراہم نہ کریں جو چاہتی ہیں کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو۔ اس لئے اس قسم کے لڑائی میں ہمیں سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا اور ہمیں کیا ہم سب کو ملت کا مفاد عزیز ہونا چاہیئے ، ملک کا مفاد عزیز ہونا چاہیئے ، اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو بہت ساری خوشیاں اور آنکھوں میں آنسوئوں کے بجائے خوشی کی دمک لوٹا دی جائیں اور آنکھوں میں سجے سپنوں کو بھی پورا کر دیا جائے۔ یہ قوم جانتی ہے کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو اگر چاہے تو عوام کو ہر خوشی دے سکتی ہے بس ضرورت ہے تو محنت اور لگن کی، اور اگر لگن کے بناء ہی صرف زبانی دعوئوں کی بات ہے تو یہ سب کچھ تو اب تک سالوں سے ہوتا ہی آیا ہے اوراسی لئے آج تک عوام کو کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔