پاکستانی قوم تاریخ کی بدترین بدحالی سے گذر رہی ہے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے پیسہ کمانے کی اس دوڑ میں ہم اس حد تک جاچکے ہیں کہ جائز اور ناجائز کی تمیز ختم ہو چکی ہے ہمیں اپنے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا غربت کی چکی میں پستے پستے عوام کے حوصلے بھی جواب دیتے جارہے ہیں آئے روز اسی افلاس کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے معصوم شہری خود کشیاں کررہے ہیں نہ صرف اپنی قیمتی جان گنواتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ اپنے معصوم بچوں کا بھی دنیا سے رابطہ ختم کروادیتے ہیں اور انہیں بھی ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی نہر میں لے ڈوبتے ہیں اس طرح نہ صرف وہ اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں بلکہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھی ظلم کی انتہاء کردیتے ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہمیں عقل دی تاکہ ہم ہر مشکل کا حل نکالیں اور اپنے راستے کی مشکلات کو ختم کریں خواہ وہ ہماری اپنی ہی پیداکردہ ہوں یا ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی طرف سے ملی ہوئی ہوں اور اگر آپ نے زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنی ہیں تو پھر ان مشکلات سے ڈر کر خود کشیاں کرنے کی ضروت نہیں بلکہ آپ کلاس روم میں پروفیسر کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس نوٹ کی طرح بن جائیں جو وہ کلاس میں طلباء کو دے رہیں ہیں۔
پروفیسر صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے اور اپنی جیب سے ایک ہزار روپے کا نوٹ نکالا اور کلاس میں موجود تمام طلباء سے انہوں نے سوال کیا : ہزار روپے کا یہ نوٹ آپ میں سے کون کون لینا پسند کریگا ;؟ہاتھ کھڑے ہونا شروع ہوگئے ۔ پروفیسر صاحب نے طائرانہ نظر وں سے کلاس کا جائزہ لیا اور کہا۔ میں ابھی آپ کو یہ نوٹ دے دونگا لیکن پہلے مجھے نوٹ کے ساتھ یہ کرنے دیں ۔بات کرتے کرتے پروفیسر صاحب نے ہزار کے نوٹ کو ہاتھوں میں موڑا ،مسلا اور اسے گندا کردیا ۔)اب کون اس نوٹ کو لینا چاہے گا ؟”کلاس میں موجود طلباء کے ہاتھ پھر کھڑے ہوگئے۔
College Classrooms
پروفیسر صاحب یہ دیکھ کر مسکرائے اور انہوں نے ہزار کا نوٹ زمین پر گرادیا ۔اسے اپنے جوتے تلے مسلا۔ اسے اٹھایا تو یہ نوٹ انتائی گندا ،میلا اور بدنماہوچکا تھا ۔ اب اسے کون لینا چاہے گا ؟”ایک مرتبہ پھر ہاتھ ہوا میں کھڑے ہوگئے ۔پروفیسر صاحب مسکرائے اور بولے :عزیز طالب علموں ٰ آج آپ سب نے ایک انتہائی قیمتی اور بے بدل سبق سیکھا ۔میں نے ایک ہزار کے نوٹ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ اسے گندا کیا ، میلا کیااور اسے خوب خراب کیا مگر پھر بھی آپ اسے لینے کے لیے تیار تھے ۔کیونکہ میں نے جو کچھ بھی کیا ، اس سے نوٹ کی قدروقیمت کم نہیں ہوئی ۔ اب بھی اسکی قیمت ایک ہزار روپے ہی ہے۔
زندگی میں کئی مرتبہ ہم گر جاتے ہیں ۔ہمیں ٹھوکریں پڑتی ہیں ۔ہمیں رگیدا جاتا ہے ۔ہمارے غلط فیصلوں کی مٹی ہمارے چہروں پر لگ جاتی ہے اور حالات کی سختیاں ہمارے چہرے پر نقش ہوجاتی ہیں ۔ ہمیں یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شائد ہم بلکل بے معنی بے کار اور ناکارہ ہوچکے ہیں ، ہماری کوئی اہمیت نہیں رہی۔ مگر یاد رکھیے آپ کے ساتھ جو ہوچکا ہے یا جو ہوگا اس سے آپ کبھی اپنی اصل قدروقیمت نہیں کھوئیں گے ۔آپ اشرف المخلوقات ہیں اور رہیں گے آپ خاص الخاص ہیں اور ہیں گے ۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے گا اپنی قدروقیمت کو پہچانیے۔