پٹے ہوئے مہرے اور نا کام مداری کی حالت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے،ہار کا دکھ اور تماشے کی ناکامی کسی پہلو چین نہیں لینے دیتی ،اپنی علمیت،بڑائی اور خود نمائی کی شکست تمام اصول قاعدے اور اخلاقی ضابطے بھی بھلادیتی ہے،انسان اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور ہذیان بکنے لگتا ہے،ایسا ہی کچھ حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ ہوا،پٹیشن کیا خارج ہوئی حضرت سب کچھ بھول کر جاہ و جلال کی ایسی تصویر بن گئے،جس کی توقع بہت ہی کم تھی،کل تک آئین اور قانون کی دانشمند ی کے قصیدے پڑھنے ، سپریم کورٹ زندہ بادکے نعرے لگوانے اور اُس کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کرنے والے آج عدالت عظمیٰ،چیف جسٹس اور معزز ججزز پر انگلیاں اٹھارہے ہیں۔
زبان شرارے اُگل رہی تو چہرہ غیض وغضب کی آڑی ترچھی کہانیاں سنارہا ہے،شعلہ بیانیاں ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی،دوسری طرف حضرت شیخ الاسلام کے حواریوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں،محترم چیف جسٹس صاحب کے خلاف شوشل میڈیا پرجس قسم کے غیراخلاقی رویئے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے،وہ یہ سوال کھڑا کررہا ہے کہ کیا مصطفوی انقلاب کے دعویداروں اور حسینیت کی مالا چبنے والوں کا کردار ایسا ہوتا ہے۔
محترم شیخ الاسلام صاحب جس طرح پٹیشن کے خارج ہونے پر پریس کانفرنس میں شعلہ فشاں نظر آئے،اُسے دیکھ کر فیصل رضا عابدی کا منہ سے آگ نکالنا یاد آ گیا، حیر ت ہوتی ہے عقیدت مندوں کے اِس جملے پر کہ”حق کے راستے میں رکاوٹیں آتی ہیں۔”بے شک حق کا راستہ مشکل اور کٹھن ہے مگر مسافران ِحق عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہیں،جس طرح چیف جسٹس صاحب دو سال مصائب میں رہے ،لیکن کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے، صبرو استقامت سے حالات کا مقابلہ کیا ، حق پر تھے تو دنیانے دیکھا کہ حق کیسے غالب آیا۔
مگرآپ کو تو ابھی میدان کارزار میں اُترے دو ماہ کا عرصہ بھی نہیںگزرا،ابھی تو ابتدائی معرکہ کاآغاز بھی نہیں ہوا،کامل انقلاب کی منزل تو کوسوں دور ہے ، اتنی جلدی صبر رضا کا دامن چھوڑ دیا اور مذہب و اخلاقیات کے سارے اصول بھول گئے ،عدالتی فیصلے سے اختلاف کا یہ طریقہ تو نہیں کہ چیف جسٹس صاحب کی ذات کو ہدف تنقید بنایا جائے،گڑھے مردے اکھاڑے جائیں اور عدالت میں پرانی تصویر کو دکھاکے گلا پھاڑ کے کہا جائے کہ ملکہ الزبتھ اور مشرف کی وفاداری میں کوئی فرق نہیں، آپ نے بھی تو پرویز مشرف کے پی سی اوکے تحت حلف اٹھایا تھا۔
Shaykh Ul Islam
جناب شیخ الاسلام صاحب یقینا آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ اگر حال کلمہ پڑھ لے تو ماضی کا کفر کالعدم قرار پاتا ہے،غلطی کا ادراک اوردور رہنے کا طرز عمل ماضی کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بیرسٹراعتزاز احسن نے بڑی متوازن بات کہی کہ” پی سی او کے تحت حلف اْٹھانا اْتنا ہی غلط ہے جس قدر دہری شہریت کا حامل ہونا ہے، لیکن اسی چیف جسٹس نے بعد ازاں ڈکٹیٹر کے سامنے حرف انکار بھی بلند کیا اور پی سی او حلف کے گناہ کا کفارہ بھی ادا کر دیا، اب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو پی سی او جج نہیں کہہ سکتے۔
حقیقت بھی یہی ہے قوم چیف جسٹس صاحب کو پی سی او جج نہیں سمجھتی،چیف صاحب نے اُس لغزش کا جو کفارہ ادا کیا ہے ،اُس کی نظیرہماری عدالتی تاریخ میں شاید ہی کوئی اور ملے،چیف صاحب کے ایک حرف انکار نے عدلیہ کو نظریہ ضرورت کی دلدل سے نکال کر آئین و قانون کی پاسداری کا وہ حوصلہ عطا کیا ہے،جس پر تاریخ ہمیشہ فخر کرے گی،جناب شیخ الاسلام صاحب آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کی نیک نیتی پر شک نہ کیا جائے تو آپ کو کینیڈین شہریت ختم کرکے ملکہ کے حلف ِوفاداری پر تین حرف بھیجنا ہونگے ،یقین جانیئے آپ کو بھی عزت مل جائے گی،لیکن اگر آپ کا یہی طرز عمل رہا کہ جن کو یزید ، ڈاکو اور لٹیرا کہہ کر سابق حکمران قرار دیا ، پھر انہی سے مذاکرات و عہد وپیماں کیے توآپ کی صداقت و وفاداری پر سوال تو اٹھیں گے، اِس پر اتناچراغ پا ہونا کہ تہذیب و شائستگی کا دامن ہی چھوٹ جائے آپ اور آپ کے معتقدین کو زیب نہیں دیتا۔
حالات و قرائین تو یہی ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت شیخ الاسلام صاحب یہ سوچ کر پاکستان آئے تھے کہ” جب اِس ملک میں اپنا حلقہ انتخاب نہ رکھنے والا دو حلقوں سے منتخب ہوجاتا ہے، متنازعہ شہریت رکھنے کے باوجود وزیر اعظم اور مالی امور کا نگران بن کر ملک وقوم کی تقدیر کے فیصلے کرتاہے،ملک کو دو لخت کرنے والا فوجی آمر اپنی بقیہ زندگی آرام اور چین سے بسر کرتا ہے،دوسرا فوجی آمر جمہوری حکومت کا تختہ الٹتا ہے اور کمزور عدالتی فیصلے کے باوجود ایک منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر چڑھادیتا ہے،تیسرا فوجی ڈکٹیٹر ایک وزیر اعظم کو ملک بدر کردیتا ہے، عدلیہ پر شب خوں مارتا ہے۔
دو مرتبہ آئین توڑتا ہے اور گارڈ آف آنر کے سائے میں رخصت ہوکر لندن میں آرام و سکون کی زندگی گزارتا ہے ،موجودہ صدر ،وزیر اعظم اور وزراء پر بے لگام کرپشن کے الزامات لگتے ہیں لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ احتساب کی بات کریں،اسمبلی کے 70فیصد اراکین ٹیکس نہیں دیتے مگر آئین میں اپنی پسند کی ترامیم کرالیتے ہیں،کراچی جیسے شہر میں پولیس اور رینجرز کے ہوتے ہوئے روزانہ درجنوں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں اورقاتل چھلاوے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں، کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہورہا ہے،مزید طرفہ تماشا یہ کہ قبروں میں دفن لیڈر زندوں پرحکومت کرتے ہیں” جیسے انہونے اور حیرتناک واقعات ہوسکتے ہیں۔
Iftikhar Mohammad cudhry
تو اِن حالات میں وہ بھی اگر ڈگڈگی بجا کر ایک نیا تماشا دکھادیں تو کوئی نئی بات نہ ہوگی،جہاں قوم کو بے وقوف بنانے کے اتنے سرکس چل رہے،وہاں ایک نئے سرکس میں کیا مضائقہ ہے ،لیکن اِس خوش فہمی میں شیخ محترم یہ بات بھول گئے کہ افتخار محمد چودہری صاحب کے حرف انکار سے جنم لینے والی سپریم کورٹ ملک کے اُن چند اراروں میں سے ایک ہے جس نے پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے،سپریم کورٹ کے جج صاحبان کسی کی فصاحت و بلاغت اور چرب زبانی سے متاثر نہیں ہوتے ،نہ ہی سٹرکوں پر کیا جانے والا احتجاج،بڑے سے بڑا جلسہ اور لانگ مارچ اُن پر اثر انداز ہوتا ہے،وہ تو صرف آئین وقانون کی کو دیکھتے ہیں۔
دلیل و اصول کی زبان سمجھتے ہیں،اسی لیے عدالت عظمیٰ اُن کی درخواست کو بدنیتی پر مبنی قرار دے کر واضح کردیا کہ بیرون ملک مقیم دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو ووٹ کا حق تو ہے لیکن ایسی سیاست کا نہیں جس سے سارے ملک کا نظام اُلٹ پلٹ ہوجائے،یوں عدالت عالیہ نے شیخ الاسلام کو پنڈورا بکس کھولنے کی اجازت نہیں دی اور 23 دسمبر سے چائے کی پیالی میں اٹھایا گیا طوفان خس وخاشاک کی طرح بیٹھ گیا،ویسے بھی پچھلے چند سالوں کے دوران عدالتوں نے ایسے بہت سے حالات دیکھ لیے ہیں ،جن کی روشنی میں حضرت شیخ الاسلام کا ایجنڈا سمجھنا کوئی مشکل کام نہ تھا،باالفاظ دیگر حضرت نے سرکس لگانے کیلئے غلط جگہ کا انتخاب کیا ہے، اگر وہ 23دسمبر کے جلسہ عام اور 14جنوری کے لانگ مارچ کی خود ساختہ کامیابی پر ہی اکتفاء کرلیتے اور اتنا زیادہ اونچا اُڑنے کی کوشش نہ کرتے تو آج انہیں اِس خفت آمیز شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
کہتے ہیں علم کی زیادتی انسان کو عقل کُل ہونے کے زعم میں مبتلا کردیتی ہے،یہ غرور وتکبربڑے بڑے عابدوں اور زاہدوں کو راندہ ٔ درگاہ بنادیتا ہے،حضرت بزعم خود کتنے ہی بڑے شیخ الاسلام ، پروفیسر،ڈاکٹر ،قانون دان اور علامہ کیوں نہ ہوں،لیکن سپریم کورٹ میں اپنے مقدمے کے دوران جس طرح اُن کی قانونی مہارت کی پول کھلی اُس نے اُن کے بقیہ دعووں میں بھی کلام کی گنجائش پیدا کردی ہے، ضروری نہیں کہ عوام کے مجمع میں گرجنے برسنے اور خوابوں و تاویلات کے سہارے لوگوں کو بے وقوف بنا لینے والا ہر آدمی دنیا کے تمام علوم وفنون میں ماہر و یکتا ہو،عدالت عظمیٰ میں جس طرح شیخ الاسلام نے اپنے جوہر دکھائے اُس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اُن پر توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جاتا۔
مگر عدالت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگذر سے کام لیا،شیخ الاسلام کو تو عدالت کی اِس مہربانی پر شکرگزار ہونا چاہیے،مگر افسوس جس دانش کم وحشت کا عملی مظاہرہ انہوں نے پٹیشن کے خارج ہونے پر پریس کانفرنس میں کیا،اُس نے اُن کی شخصیت اور قول و فعل کی بہت سے جہتیں کھول کر ظاہر کردیا کہ حسینیت کا درس دینے والے اور لوگوں کو صبر و استقامت کی تلقین کرنے والے کس قدر جلد تہذیب و شائستگی کے تمام ضابطے بھول جاتے ہیں،المیہ یہی ہے کہ نماز باجماعت کی تلقین کرنے والے اور نیکی وپرہیزگاری کا درس دینے والے اکثر خود نمازوں کے اوقات اور نیکی و تقویٰ پر عمل بھول جاتے ہیں۔ تحریر :۔محمد احمد ترازی