طالبان کلیسائی دور کے قاتل

Quetta

Quetta

تلسی داس نے کہا تھا مظلوم کی اہ خدا بھی نہیں سہہ سکتا کیونکہ مردہ کھال پھونکنے سے لوہا بھی پگھل جاتا ہے۔کوئٹہ اور کراچی خون انسانیت میں ڈوب چکے ہیں۔ ہر سو موت کا رقص بسمل جاری ہے۔ طوائف الملوکی تخریب کاری اور دہشت گردی نے پاکستان میں گھر بنالیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب درجنوں ماوں کے لخت و جگر گولیوں اور دہشت گردی کی بھینٹ نہ چڑھ رہے ہوں۔

پاکستان ایک ایسے تاریک جنگل کا روپ دھار چکا ہے جہاں بھیڑیوں کا راج ہے۔ دو روزقبل کوئٹہ میں برپا ہونے والی قیامت صغری میں ہلاکتوں کا اکاوئنٹ 227 تک پہنچ چکا ہے۔ گورنر راج کے بعد حالات معمول کی طرف انے لگے تھے مگر و حشت و بریت کی اخری لکیر کو بھی کراس کرجانیوالوں نے کوئٹہ کی ہزارہ برادری کو دوسری بار خون میں نہلا دیا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کیا خوب لکھا کہ لگتا ہے کوئٹہ شہر ہزارہ برادری کا قبرستان بن چکا ہے۔voa کے مطابق 4 سال7 ماہ میں ہزارہ برادری کے 500 افراد قتل جبکہ3504 بچے عورتیں بوڑھے اور نوجوان زخمی ہوئے۔

بی بی سی ڈاٹ کام نے اپنے تبصرے میں چند جملے ایسے قلمبند کئے ہیں جو روح کو لرزا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر انجینر کھلاڑی طالبعلم اسکو مار دیا جاتا ہے۔ ہزارہ برادری کے تاجروں کو سرعام اغوا کرکے بھاری تاوان کی رقم وصول کی9 جاتی ہے۔ وادی کوئٹہ کے مشرقی دامن مری اباد اور مغربی علاقے ہزارہ ٹاون میں اباد ہزارہ قبیلے کی ابادی 5 لاکھ ہے جنہیں اب ایک مخصوص جگہ پر محدود کردیا گیا ہے۔

کالعدم لشکر جھنگوی ہزارہ برادری پر مسلط کی جانیوالی دہشت گردی کے واقعات کی زمہ داری قبول کرتی ہے۔ بی بی سی نے اس حوالے سے ایک چشم کشا سوال اٹھایا ہے۔گو کہ لشکر جھنگوی ایک کے بعد دوسری شام غریباں بپا کرنے کی دھمکی دیتی ہے لیکن پنجاب میں بننے والا لشکر جھنگوی بلوچوں میں کیسے موثر اور مقبول ہوگیا؟ اس کا جواب شائد کسی کے پاس نہیں دہشت گرد چاہے لشکر جھنگوی کے ہوں یا کالعدم تحریک پاکستان کے وہ شیعہ ہوں یا سنی وہ نہ تو اسلام کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی اسوہ حسنہ کے پیروکار وہ نہ تو پاکستان کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی امت مسلمہ کے۔ انکی بہیمانہ کاروائیوں سے جہاں ایک طرف خدائی تعلیمات کا تمسخر اڑایا جاتا ہے تو وہاں دوسری طرف انکی سفاکیت نے یہو و نصاری کے مذموم ارادوں کو جلابخشی ہے۔

Taliban

Taliban

طالبان کے ہاتھوں اب تک 45 ہزار پاکستانی شہید ہوچکے ہیں جن میں سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں رجال کار بھی شامل ہیں۔ طالبان کے قاتل ونگ نے ایک طرف جہاں سیاسی مخالفین کو راندہ درگاہ بنایا تو وہاں دوسری طرف انہوں نے مخالف مذہبی و دینی مسلکی نظریات کے حامل جید علما کرام کو چن چن کر قتل کیا جنہوں نے بے گناہ پاکستانیوں کی ہلاکت پر ٹی ٹی پی کی خوانخواری کی مذمت کی۔ اسلام پسند عالم مفتی حسن جان نے فتوی دیا تھا کہ خود کش حملے حرام ہیں۔ چند روز بعد طالبان نے انکی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ طالبان نےanp کے کئی رہنماوں وزیراطلاعات خیبر پختون خواہ افتخار حسین کے جواں سال فرزند سے لیکر سینیر منسٹر بشیربلور> 22دسمبر <خیبر پختون خواہ اسمبلی کے رکن زیب خان سے لیکر اسفند یار ولی کے قریبی ساتھیوں کو بارود میں راکھ کردیا۔ طالبان نے اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی سے لیکر صوبائی چیف منسٹر امیر خان ہوتی >فروری 2013ِ<تک کو نہیں بخشا مگر جسے اللہ رکھے انہیں کوئی مائی کا لال گزند نہیں پہنچاسکتا اے این پی نے اتنے زخم سہنے کے بعد افر دی کہ اگر گوریلے ہتھیار و بارود پھینک کرزیتوں کی شاخ اٹھالیں تو ہم انہیں خون بھی معاف کرسکتے ہیں۔یکم اور دو فروری کو ٹی ٹی پی نے ہنگو اور لکی مروت کے فوجی کیمپ پر خون کی یورش کر دی جس میں نصف سنچری موت کے منہ میں چلی گئی۔3 فروری کو طالبان نے پینترا بدلا اور حکومت کو مذاکرات کی مشروط دعوت دی۔

اسی پس منظر میں اے این پی کے زیراہتمام14 فروری کو اسلام اباد میں ال پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دو درجن سے زائد سیاسی جماعتوں نے بیک زبان مذاکرات کی حمایت کردی۔ اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکراتی عمل کے ساتھ کئی ایسے استفسارات جڑے ہوئے ہیں جنکا جواب دینا لازم ہوگا۔ناقدین نے کہا ہے کہ سیاسی قائدین نے خونیوں کے سامنے ہتھیار پھینک دئیے ۔طالبان افواج پاکستان ائین پاکستان اور عدلیہ پارلیمان کے متعلق باغیانہ خیالات اور تحفظات رکھتے ہیں کیا اب وہ ان سے دستکش ہوجائیں گے؟ کیا پاکستان کے چپے چپے کو خود کش حملہ اوروں کی بربریت سے جہنم بنانے فوجی جوانوں کے گلے کاٹنے اور سوات میں لاتعداد پاکستانیوں کے کشت و قتال کوئٹہ سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کرنے والے دہشت گردوں کے سنگین جرائم کو معاف کردیا جائیگا؟ کیاttp کے جیلوں میں قید سنگین مقدمات کے ملزمان کو رہا کردیا جائیگا؟ طالبان جنکی سرکشی پوری دنیا میں مشہور ہے کو مذاکرات کے ایجنڈے کا پابند بنانے کا زمہ کون لیگا؟ کیا مذاکرات کو سیکیورٹی فورسز کی تائید حاصل ہوگی۔

مذاکرات کی افرز ڈھونگ تھی۔ اگر ٹی ٹی پی اور انکے غیر ملکی سرپرپرستوں کی نیت درست ہوتی تو ہنگو سے لیکر کوئٹہ تک اور کراچی سے لیکر مردان تک سینکڑوں بے گناہوں کو تختہ مشق نہ بنایا جاتا۔ ttp کی دہشت گردی فرعونیت رعونت قتل و غارت نے رومن دور کے کلیسا کی یاد تازہ کردی کیونکہ انسانیت پر جبر و استبدادیت ڈھانے شرف انسانیت کو پامال کرنے کا کریڈٹ تو چرچ اور کلیسا کے نام تھا مگرttp ہو یا قاتل انسانیت لشکر جھنگوی نے چرچ و کلیسا کی سفاکیت کو پیچھے چھوڑ کر اسلامی شعائر کا جنازہ نکال دیا۔۔1233 میں رومن کلیسا نے مذہب میں باقاعدہ تشدد کا اغاز کیا۔ پوپ کے حکم پرمذہبی عدالتیں قائم ہوئیں۔ کلیسائی عدالت کے طالبان لوگوں کے مذہبی عقائد کی چھان بین کرتے تھے انکے معیار پر پورا نہ اترنے والے سیاہ نصیبوں کو اگ میں زندہ جلادیا جاتا۔پوپ نے فتوی جاری کیا کہ دوسروں کے عقائد کی مخبری کی جائے۔ پوپ نے تعلیم کو شیطانی عمل قرار دیا۔ پوپ اور اسکے طالبان کارندے واقعی یہ سمجھتے تھے کہ وہ لوگوں کو زندہ جلا کر انکی روحوں کو پاک صاف کررہے ہیں۔

مذہب کے علمبرداروں نے دوسروں پر اپنے نظریات تھوپنے کو اپنا دینی فریضہ گردانا۔چودہویں صدی میں اکسفورڈ یونیورسٹی جو لندن کا روحانی اور دینی مرکز تھا میں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ دانشور اور روحانی سکالرز بن گئے جنہوں نے کلیسا کی مذہبی سزاوں کو ناانصافی سے تعبیر کیا۔ دانشوروں میں سے جان کلف نے خوب شہرت پائی مگر اسکا ایک شاگرد جان پال اس سے بھی اگے نکل گیا۔ جان پال پوپ کی مذہبی عدالتوں اور اسکے طالبان کی قتل و غارت کے خلاف وعظ دیتا۔ جان پال کہا کرتا انگلستان کی حالت اس وقت تک نہیں سدھر سکتی جب تک کلیسا و چرچ کی استحصالی سزاوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔یہ باغیانہ خیالات تھے یوں1381 میں پوپ کے طالبان نے جان پال کو پھانسی کی سزا دی۔ اسی زمانے میں ایک انقلاب پرست طبقہ چیکوسلواگیہ میں پیدا ہوا ۔جان ہسن نامی دانشور سکالر اور پادری انکا امام تھا۔

جان ہسن کو رومن کلیسا کے حکم پر اگ کے سپردکیا گیا۔ اسکی بیش قیمت تصنیفات ہڈیوں اور گوشت کے ساتھ راکھ بن گئیں۔ صدیوں قبل رومن کلیسا نے مذہب کے نام پر جس تشدد کا اغاز کیا تھا وہی ttpصدیوں بعد پاکستان میںخود کش بمباری بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں دہرارہی ہے۔ طالبان کہیں خدا کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں تو کہیں انکے پروردہ خود کش بمبار اور ٹارگٹ کلرز ائے روز سینکڑوں بے گناہوں کو سپرد موت کررہے ہیں۔ کہیں سکولوں کو بارود سے تباہ کیا جارہاہے اور کہیں شیعہ مسلک اور ہزارہ برادری پر اگ و خون کی بارش ہورہی ہے اور کہیں مذہبی عدالتوں میں کلیسائی دور کی وحشیانہ سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ اگر طالبان کی جنونیت اسی طرح بڑھتی رہی تو ایک ایسی تباہی نوشتہ دیوار بن سکتی ہے جسکی لپیٹ میں ریاستی سلامتی بھی اسکتی ہے۔ مذاکرات ہونے چاہیں مگر اسکا اختیار پاک فوج کے سپرد کیا جائے مذید براں سیاست دانوں حکومتی مہربانوں اور خاکی جرنیلوں اور کارزار سیاست میں موجود مذہبی جماعتوں کو فالفور سیاسی و دینی نظریات سے بالاتر ہوکر مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے تاکہ رومن دور کے کلیسائی دہشت گردوں کو نکیل ڈالی جائے۔

پوری قوم کوئٹہ کے ہزارہ قبیلہ کے شہدا کے غم میں برابر کی شریک ہے تاہم لاشوں کو سیاست کاری کے لئے استعمال کرنا اسلامی تعلیمات کی بے حرمتی ہے۔صدر زرداری کوئٹہ اور کراچی کو فوری طور پر فوج کے حوالے کر دیں۔دونوں شہروں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے 1970 کے دو لخت ہو جانیوالے پاکستان کا دوسرا اور واحد حصہ دہشت گردی کے تندور میں جل کر راکھ ہو جائے۔

Terrorism

Terrorism

طالبان تلسی داس کے محولہ بالہ قول کی روشنی میں بے گناہ مظلوم انسانوں کا قتل عام بند کریں۔ کیا45 ہزار مسلمانوں کو موت کے منہ میںں دھکیلنے اور انکی زندگی کا خون چوسنے کے باوجود انکی خونی پیاس نہیں بجھ سکی؟ شرم کرو تلسی نے تو درست ہی کہا تھا مردہ کھال کے پھونکنے سے لوہا بھی پگھل جاتا ہے مگر خدا کے باغیو کیا تمھارے دل و ضمیر پتھر بن چکے کہ روزانہ بے گناہ انسانوں کی درجنوں لاشوں کا ڈھیر لگانے کے باوجود پگھلنے اور شرم و حیا کا نام لینے سے قاصر ہیں۔

تحریر : روف عامر پپا